سیدہ صفیہ زیشان
یوں تو میں ہوں ایک چھوٹا سا جراثیم، مگر اس دنیا کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ یہ ترقی یافتہ ممالک جو خود کو بہت صاف اور کامیاب سمجھتے ہیں ان کا غرور توڑنے کے لیے میں اکثر اس دنیا میں آجاتا ہوں۔ اس بار دنیا میں آکر میں نے شروعات چین سے کی جس نے میرے بغیر بھی اس دنیا کو تنگ کر رکھا ہے۔ اس ملک پر حملہ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ دور بیٹھے دوسرے سارے امیر ملکوں کے لوگوں کو میں کیسے ہلا سکتا ہوں۔ ہوا یوں کہ چین کی حالت دیکھتے ہی ان دوسرے امیر ملکوں کی حکومتیں اور عوام دونوں ہی پریشان ہوگئے یہاں میں یہ سمجھا تھا کہ چلو امیر ملکوں پر زور اس لیے کہ غریب ملک پہلے ہی سے اس دنیا کے دھتکارے ہوئے ہیں ان کو اور پریشان کرنے میں وہ مزا نہیں جو ان امیر ملکوں کو پریشان کرنے میں ہے۔ ان ملکوں کے لوگوں نے دکان کی دکان خالی کرنا شروع کردیں، مطلب جلد سے جلد سامان وہ بھی وافر مقدار میں خرید خرید کر اپنے گھروں میں بھرنا شروع کردیا تاکہ جب میں ان کے ملک میں آؤں تو یہ ڈر کر اپنے گھروں میں گھسے رہیں اور میں ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ پاؤں، بس جیسے ہی یہ لوگ گھبرائے میں سمجھ گیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان پر ہلہ بولا جائے۔ میں نے چین کے بعد سب سے پہلے امریکا، فرانس اور اٹلی پر حملہ کیا مگر لپیٹے میں بیچارہ ایران بھی آگیا بس گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔
یوں تو میرا کسی بھی ملک یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں مگر جس خالق نے مجھے بنایا ہے، اس سے اور اس کے ماننے والوں سے ڈر لگتا ہے۔ تو یوں امریکا جو خود کو سپرپاور کہتا ہے اور دنیا بھر میں شیطان بنا گھومتا ہے ایک چھوٹے سے جراثیم سے مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ اپنے لوگوں کو بہترین دوا اور سہولتیں دینے کا دعویٰ کرنے والا اپنے 12,400 لوگوں کو مجھ سے بچانہ سکا۔ کہنے کے لیے ترقی یافتہ مگر اندورونی طور پر اتنا مہنگا کہ عام انسان ڈاکٹر کے پاس جانے سے گھر ہی میں دم توڑنے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے جبکہ ان کو میرے آنے کا پتا جنوری ہی میں چل گیا تھا مگر خود کو ہوشیار سمجھتے ہوئے کوئی حل نہ نکال سکے۔ WHO کے مطابق امریکا کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ ہزار مریضوں کے لیے اسپتال میں تین سے زیادہ بستر نہیں اور ان کے یہاں ڈاکٹروں کی تعداد بھی اتنی ہی کم ہے۔ ہزار مریضوں پر صرف تین ہی ڈاکٹر میسر ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ حکومت نے صاف لفظوں میں بول دیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ صرف میڈیکل اسٹاف، سیاستدان اور حاملہ عورتوں کو بچائیں گے۔ ادھر برطانیہ کا بھی برا حال ہے، وہاں کی حکومت مجھ سے ایسا ڈری کہ لوگوں کو خود ہی بول دیا کہ گھر میں رہیں، دوستوں اور رشتے داروں سے نہ ملیں، ہاتھ بار بار دھوئیں اور اگر کسی بھی جگہ دوسرے لوگوں سے سامنا ہو جائے تو دو میٹر کا فاصلہ رکھیں مگر ان سب کے باوجود اپنے ملک کے 9159 لوگوں کو مجھ سے نہ بجا سکے بلکہ خود برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ہیں اور عوام سے دعائوں کی اپیل کر رہے ہیں۔
میں ان ملکوں کو ایسا تنگ کر رہا ہوں جیسے بلی چوہے کو۔ کچھ ایسا ہی حال دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کا بھی ہے جو مجھ سے دور رہنا چاہتے ہوئے بھی نہیں رہ پارہے ہیں۔ ہر جگہ میری ہی بات چل رہی ہے۔ جگہ جگہ مجھ ہی سے بچنے کے طریقے سوچے جارہے ہیں اور کسی کے پاس مجھے مارنے کا کوئی حل نہیں۔ لوگ دعائوں کی درخواست کر رہے ہیں۔ پہلے سب کو لگا میں صرف بوڑھے اور کمزور لوگوں ہی کو نقصان پہنچاتا ہوں لیکن پھر آہستہ آہستہ ان سب کو بھی سمجھ میں آنے لگا کہ میرا جس کو نقصان پہنچانے کا دل چاہے گا اس کو پہنچاؤں گا۔ یوں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور کئی اور ممالک کے لوگ مجھ سے ڈر کر اپنے اپنے گھروں میں محصور ہوگئے ہیں اور میں ان کے شہروں میں بڑی شان سے گھوم رہا ہوں۔ آج شاید ان کو ان معصوم لوگوں کی حالت کا احساس ہو گیا ہوگا جو کشمیر، فلسطین اور شام جیسے شہروں اور ملکوں میں ڈرے بیٹھے ہیں جن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور مذہبی آزادی کے ساتھ جینا چاہتے ہیں مگر یہ ترقی یافتہ ممالک ان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے بلکہ ان کو دہشت گرد بنا کر پوری دنیا کو دکھاتے ہیں۔ یوں تو مسلم اْمّہ بھی کم نہیں… ایک ہو کر ان لوگوں کا ساتھ دینے کے بجائے ان کا تماشا دیکھتی رہتی ہے، لہٰذا مجھ جیسی آفت ان کی اپنی لائی ہوئی ہے۔ اب حال یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں پردہ کرنا منع تھا، لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینا منع تھا اب لوگوں سے درخواست کی جارہی ہے کہ پردہ کریں۔ مجھ سے بچیں اور اذانیں دیں اور دعائیں مانگیں تاکہ مجھ سے دور رہ سکیں لیکن مجھے پتا ہے کہ جہاں میں اس دنیا سے گیا وہاں پھر سے پوری دنیا ویسی ہی ہو جائے گی مگر میں بھی جاتے جاتے ایسی چھاپ چھوڑ جاؤں گا کہ نہ صرف یہ بلکہ ان کی آنے والی نسلیں بھی مجھے یاد رکھیں گی۔ یوں تو میں ہر سو سال میں اس دنیا میں آجاتا ہوں مگر ہر دفعہ کسی نئی صورت میں اور نئے نام کے ساتھ یا یوں کہوں کہ ہر دفعہ مجھے لوگ ایک نیا نام دیتے ہیں۔ آخری بار میں اس دنیا میں 1918 میں آیا تھا۔ جس کو کچھ لوگوں نے Spanish flu کسی نے black death اور کسی نے تو blue death کا نام بھی دیا تھا۔ اس وقت بھی میں نے پوری دنیا کو ہلایا تھا تقریباً 50 ملین کے قریب لوگوں کو، عقل نہیں آئی۔ ہر بار میں اس دنیا میں آتا ہوں نقصان پہنچاتا ہوں لوگ مجھے نام دیتے ہیں نقصان اٹھاتے ہیں مگر آج تک یہ میرا کوئی توڑ یا مجھ سے بجنے کی کوئی دوا نہیں بنا پائے۔ اس دفعہ لوگوں نے میرا نام COVID 19 رکھا ہے۔ کہنے کو تو یہ ترقی یافتہ ملک چاند پر پہنچ گئے ہیں مگر اپنی ہی دنیا کے ایک جراثیم سے لڑ نہیں پائے۔ مگر اب میں پھر سے آہستہ آہستہ کمزور ہو رہا ہوں یا آپ لوگوں کی دعائیں مجھے مار رہی ہیں لگتا ہے اب اس دنیا سے جانے کا وقت آگیا ہے مگر میں پھر آئوں گا اس دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کو آئینہ دکھانے جب تک کے لیے مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے اپنی باتوں میں اور دعاؤں میں یاد رکھیں گے چاہے وہ مجھ سے دور رہنے ہی کی کیوں نہ ہوں۔