ہولناک معاشی بحران سر پر آگیا

383

تمام اقتصادی اشاریے معاشی صورتحال کی خرابی کی تصویر دکھا رہے ہیں اور اب خرابی وہ نہیں ہے جو تمام حالات میں ہوتی ہے۔ بلکہ اس کے اثرات دور رس اور نہایت سنگین ہوں گے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے بیروزگار ہیں۔ چھوٹے دکانداروں کا کاروبار بند ہے۔ کپڑے، جوتے، سلے سلائے کپڑے وغیرہ کی خرید و فروخت بند ہے۔ درزیوں کا کام بند ہے۔ فیکٹریوں میں بہت ہی کم کام ہو رہا ہے۔ پرائیویٹ کمپنیوں نے بڑے آرام سے لیبر کی چھٹی کر دی ہے۔ اخباری صنعت نے بھی چھانٹی میں اضافہ کردیا ہے۔ عام رکشہ، ٹیکسی اور پرائیویٹ ٹیکسی سروس بھی بند ہونے کے برابر ہے۔ مسافر ہی نہیں ہوں گے تو یہ گاڑیاں کیسے چلیں گی۔ پیٹرول اور گیس پمپوں نے یومیہ اجرت والوں کی چھٹی کر دی ہے۔ بیکریاں بند ہیں اور ان میں کام کرنے والے کاریگر بھی یا تو چھٹی پر ہیں یا بیروزگار ہیں۔ انہیں مالکان کوئی رقم بھی نہیں دے رہے۔ صورتحال اس قدر ہولناک ہے کہ جب لاک ڈائون ختم ہو گا تو لوگ گھروں سے نکل کر روزگار تلاش کریں گے اور فوری طور پر ہر ایک کو روزگار نہیں مل سکتا۔ ٹرانسپورٹرز کو کچھ ریلیف ملے گا۔ لیکن رنگ و روغن اور گھروں میں مستری وغیرہ کے کام کے لیے کوئی فوری طور پر ہمت نہیں کرے گا۔ کیونکہ تنخواہ دار طبقے کی کمر بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔ جو لوگ ٹیوشن سینٹر اور تعلیمی ادارے چلا رہے تھے انہیں بھی الٹے سیدھے قوانین کے ذریعے پریشان کردیا گیا ہے۔ تعلیمی ادارے والوں کو بھی جب وہ اسکول کالج کھولیں گے تو نئے عذاب کا سامنا ہوگا۔ اساتذہ اور عملے کی تنخواہیں، عمارتوں کا کرایہ اور دیگر بلز… فیسیں غائب۔ حکومت نے دو دن میں بڑی خوبصورتی سے 13 ارب روپے تقسیم کر دیے، چار پانچ ارب میں بجلی کے بل بھی ادا کر دے۔ آٹے، دال، تیل، مرغی، سبزی اور پھلوں پر اتنی سبسڈی تو دے کہ لوگ انہیں خریدنے کے قابل ہو سکیں۔ حکومتوں کی منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے لاک ڈائون کھلنے کے بعد مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ سامنے آئیں گے اور ان مسائل کا حل نکالنا بھی ان ہی کی ذمے داری ہے۔ عموماً معاشی صورتحال سے مراد عالمی اداروں کے قرضے، سود اور ڈالر کی شرح اور درآمد و برآمد کے خسارے سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب تو تباہی کی طرف جا ہی رہی ہیں۔ عام آدمی بہت بڑی آزمائش سے دوچار ہے۔