بجلی کمپنیوں سے معاہدے مشتہر کیے جائیں

238

حکومت بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں سے نئے معاہدے کرنے کے مذاکرات کررہی ہے ۔یہ معاہدے پانچ سالہ مدت کے لیے کیے گئے تھے ، جس کو گزرے عرصہ گزر چکا ہے مگر حکومت نے ابھی تک ان معاہدوں پر از سر نو معاملات کرنے کو ٹالا ہوا ہے ۔ یہ معاہدے جس وقت کیے گئے تھے ، اسی وقت نشاندہی کی گئی تھی کہ ان معاہدوں کی شرائط ہر لحاظ سے پاکستان کے خلاف تھیں ۔ ان معاہدوںمیں بجلی پاکستانی روپے میں خریدنے کے بجائے امریکی ڈالر میں خریدنے کی شرط مانی گئی تھی جس کا خمیازہ پاکستانی قوم گزشتہ 25 برسوں سے بھگت رہی ہے ۔بجلی خریدنے کا نرخ بھی پوری دنیا میں انتہائی مہنگا تھا۔ اسی طرح یہ بھی شرط تسلیم کی گئی کہ حکومت کو بجلی کی ضرورت ہو یا نہ ہو ، مگر ان اداروں کو ایک مقررہ رقم ہر صورت میں ادا کی جائے گی ۔ اس طرح بجلی پیدا کرنے والے ان نجی اداروں کے مالکان کی پانچوں انگلیاںہمیشہ گھی میں اور سر کڑاہی میں رہا ۔اب وقت آگیا ہے کہ ان کمپنیوں سے جان چھڑائی جائے اور جو بھی شرائط طے کی جائیں انہیں خفیہ رکھنے کے بجائے عوام کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ معاملات میں شفافیت رہ سکے ۔ ایسے معاہدوں کو خفیہ رکھنا ہی کرپشن کا سب سے بڑا سبب ہے۔ بہتر ہوگا کہ یہ معاہدوں پر دستخط سے قبل انہیں مشتہر کیا جائے تاکہ ان میں کسی طرح کا ابہام نہ رہے اور کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ خفیہ ڈیل کی گئی ہے ۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو سے لے کر اب تک جتنی حکومتوں نے بجلی پیدا کرنے والے ان نجی اداروں سے جو جو معاہدے کیے ہیں ، انہیں بھی پبلک کیا جائے ۔ یہ بھی بتایا جائے کہ اب تک ان اداروں کو کتنی ادائیگیاں کی جاچکی ہیں ۔ ان اداروں کے اصل مالکان کے نام بھی سامنے لائے جائیں تاکہ پاکستان کے عوام یہ جان سکیں کہ ان میں اور معاہدے کرنے والی حکومتوں کے درمیان کیا تعلق تھا۔ اس میں اب کوئی شک نہیں رہا ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے یہ نجی ادارے قوم کی گردن پر بیٹھے وہ سفید ہاتھی ثابت ہوئے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کو مزید قرضوں تلے دبنا پڑا اور آج ملک کے بجٹ کا نصف سے زاید حصہ محض سود کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتا ہے ۔ یہ سود کی ادائیگی ہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف کی ہر جائز و ناجائز املا پر یس سر کہنے پر مجبور ہے ۔