لاک ڈائون کا لاک۔ چابی کس کے پاس ہے

695

وفاقی حکومت لاک ڈاؤن میں توسیع پر غور کررہی ہے ۔ اس بارے میں فیصلہ کا اعلان آج کردیا جائے گا ۔ اگر زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھا جائے تو حکومت کو سمجھ لینا چاہیے کہ لاک ڈاؤن کے حوالے سے عوام میں بے چینی پیدا ہورہی ہے اور اگر اس میںمزید توسیع کی گئی تو اس کے نتائج سول نافرمانی کی صورت میں برآمد ہوسکتے ہیں ۔ ملک کے ساتھ ساتھ عوام کی معاشی کمر ٹوٹ کر رہ گئی ہے ۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والوںکے ساتھ ساتھ تنخواہ دار طبقہ بھی پس کر رہ گیا ہے کہ کام نہ ہونے کی صورت میں اب ہر جگہ سے چھانٹیاں شروع ہوگئی ہیں ۔ تاجر پہلے سے ہی حکومت سندھ کو آگاہ کرچکے ہیں کہ اگر لاک ڈاؤن میں توسیع کی گئی تو وہ اپنے ملازمین کو مزید تنخواہ نہیں دیں گے ۔ کورونا کے نئے مریضوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو کہیں سے بھی صورتحال سنگین نہیں ہے ۔ اب تو اسپین نے بھی جس میں ہلاکتیں عالمی سطح پر تیسرے نمبر پر ہیں ، لاک ڈاؤن کو ختم کردیا ہے ۔ایران جیسے شدید متاثرہ ملک نے لاک ڈاؤن میں نرمی کردی ہے۔ جو صورتحال پاکستان میں ہے ، تقریبا ایسی ہی صورتحال سوئیڈن میں بھی ہے مگر سوئیڈن نے کسی بھی قسم کا لاک ڈاؤن کرنے سے انکار کردیا ۔ سوئیڈن میں اسکول سمیت تعلیمی ادارے بھی کھلے ہوئے ہیں اور تمام معاشی سرگرمیاں بھی بھرپور طریقے سے جاری ہیں ۔ ڈنمارک ، ناروے ، جمہوریہ چیک اور آسٹریا سمیت دیگر ممالک نے بھی لاک ڈاؤن ختم کردیا گیا ہے مگر پاکستان ابھی تک بین الاقوامی ایجنسیوں کے املا پر چلنے پر یقین رکھتا ہے ۔ اب تو عدالت عظمیٰ نے بھی واضح کردیا ہے کہ اگر اسی طرح شتر بے مہار قسم کا لاک ڈاؤن جاری رہا تو ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے ۔ لاک ڈاؤن کے کیا نتائج برآمد ہورہے ہیں ، اس کو اس خبر کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کراچی میں بے روزگاری سے تنگ آکر ایک نوجوان نے خوسوزی کرلی جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہوگیا ۔ اب تو عالمی بینک نے بھی واضح طور پر بتادیا ہے کہ لاک ڈاؤن جیسی صورتحال کے نتیجے میں ملک کی اقتصادیات کی شرح نمو منفی رہے گی ۔ڈالر مزید مہنگا ہوگا ، قرضوں کا حجم اور بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ بڑھے گا ۔ جب ملک میں معاشی سرگرمیاں ہی بحال نہیں ہوں گی تو حکومت کو ریونیو کہاں سے حاصل ہوگا اور وہ کس طرح سے ادائیگیاں کرسکے گی ۔ ادائیگیاں کرنے کے نام پر ہی آئی ایم ایف سے قرض لیا گیا ۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے جو شرائط مانی گئیں ، اس کے نتیجے میں ملک میں پہلے ہی معاشی تباہی پھر چکی ہے اور خط غربت کو پار کرنے والوں میں روز ہی اضافہ ہورہا ہے ۔ پاکستان کا شمار پہلے ہی ان ممالک میں کیا جارہا تھا جہا ں پر شرح نمو انتہائی کم ہوگی ، اب تو صورتحال مزید مخدوش ہوگئی ہے ۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ بلاول زرداری اور شہباز شریف دونوں کا حکومت پر پورا دباؤ ہے کہ لاک ڈاؤن میں فوری اور کئی ہفتوں کے لیے توسیع کی جائے ۔ ان دونوں رہنماؤں کی پارٹیوں کا سوشل میڈیا ہانکا لگا کر وفاقی حکومت کو ایسی بند گلی میں لے جانا چاہتا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہ رہے اور عمران خان کو دیوار سے لگادیا جائے ۔ اس سلسلے میں بلاول بھٹو زرداری کی سندھ حکومت اپنا پورا زور بھی لگائے ہوئے ہے ۔ سندھ میں جہاں پر پیپلزپارٹی کی حکومت ہے ، کا پورا زور کراچی کے لاک ڈاؤن پر ہے جبکہ دیہی سندھ مکمل طور پر کھلا ہوا ہے ۔ گندم کی کٹائی بھی جاری ہے اور اس کو منڈیوں تک پہنچایا بھی جارہا ہے ۔ کراچی کو بند کرنے کا مطلب سب ہی جانتے ہیں کہ یہاں پر ملک کی دس فیصد آبادی رہتی ہے اور یہی شہر ملک کی معیشت کا 70 فیصد سے زاید بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے ۔ صرف کراچی کو بند کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت بلاول زرداری کی قیادت میں ملک کو معاشی طور پر تباہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تاکہ وفاقی حکومت کو ناکام ثابت کیا جاسکے ۔وفاق اور سندھ حکومت کی رسہ کشی کا نتیجہ ملک کی تباہی کی صورت میں نکل رہا ہے ۔ اس بارے میں عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس تو لیا ہے مگر کیا ساری ذمہ داری عدالت عظمیٰ ہی کی ہے ۔ عدالت عظمیٰ ہی دیکھے کہ وفاقی حکومت نے کورونا کے بچاؤ کے لیے موثر اقدامات کیوں نہیں کیے اور عدالت عظمیٰ ہی پوچھے کہ سندھ حکومت نے آٹھ ارب روپے کے خصوصی فنڈز کون سی خفیہ مد میں ٹھکانے لگادیے ۔ عدالت عظمیٰ ہی یہ بھی پوچھے کہ فرنٹ لائن پر کورونا سے لڑنے والے طبی اور غیر طبی عملے کو ضروری حفاظتی سازو سامان کیوں فراہم نہیں کیا گیا ۔ کیا پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا صرف ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ ہر حال میں کمیشن بنایاجائے اور وہ بھی ڈھٹائی کے ساتھ ۔ پاکستان اس وقت انتہائی اہم اور نازک دور سے گزر رہا ہے ۔ کم از کم اس وقت تو شہباز شریف اور بلاول کو پوائنٹ اسکورنگ سے گریز کرنا چاہیے ۔ اسی طرح عمران خان نیازی کو بھی اپنی صفوں پر نگاہ ڈالنی چاہیے ۔ وہ کم از کم ان لوگوں کو تو اپنی صفوں سے نکال باہر کریں جن پر گزشتہ ادوار میں کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں ۔ ان لوگوں کو تو فوری طور پر عدالتی کٹہرے میں کھڑا کردینا چاہیے جن کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ایجنسیوں نے رپورٹ دے دی ہے ۔ ملک میں لاک ڈاؤن میں توسیع کرنا کسی طور بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔ وفاقی حکومت اس سلسلے میں سندھ حکومت کے دباؤ کو خاطر میں نہ لائے اور سندھ حکومت پر واضح کردے کہ جس طرح سے اس نے سندھ میں لاک ڈاؤن از خود لگایا تھا ، اسی طرح اس کی توسیع کی ذمہ داری بھی خود لے ۔ اس طرح سے عمران خان اس بند گلی میں جانے سے بچ سکیں گے جس میں دھکیلنے کے لیے شہباز شریف اور بلاول زرداری نے ہانکا لگایا ہوا ہے ۔ یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ یہ فیصلے کون کر رہا ہے کہ فلاں فلاں کاروبار کھول دو… فلاں کام کی اجازت دیدو۔ آخر اس لاک ڈائون کی چابی کس کے پاس ہے ۔