کورونا، کہو

433

سبھی جانتے ہیں، اعمال کا دارو مدار نیت پر ہوتا ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ عمل کا ردعمل بھی ہوتا ہے۔ منزل تبھی آسان ہوتی ہے جب نیت ثابت ہو۔ ان دنوں کورونا وائرس ہمارے ذہنوں پر سوار ہے ہر تیسرا آدمی منہ پر ماسک لگائے رکھتا ہے بعض افراد تو سوتے وقت بھی ماسک نہیں اتارتے۔ ہر چوتھا بندہ دستانے چڑھائے پھر رہا ہے مگر جو لوگ اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا تحفہ کرو، نہ، کہو ہے، سو حکمران طبقہ آج تک اسی پر عمل پیرا ہے۔ ہر ادارہ کرونا کہو کے وائرس میں مبتلا ہے۔
طب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’عوام کورونا وائرس‘‘ کے ڈر میں مبتلا ہیں مگر احتیاطی تد ابیر پر عمل نہیں کرتے۔ وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں یہ تو پینا ڈول گولی کے سامنے ڈھیر ہوجاتا ہے۔ بات تو کسی حد تک ٹھیک ہے۔ بانسری بجانے کے لیے بانس کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ’’نہ بانس ہوگا، نہ بانسری بجے گی‘‘۔ کورونا وائرس کی ابتدائی علامات میں بخار، فلو، کھانسی اور سانس لینے میں دقت اور پھر کورونا۔ ان حالات میں کورونا وائرس کو نمونیا کی بگڑی ہوئی صورت کہا جاسکتا ہے۔
شنید ہے کہ ’’کورونا وائرس‘‘ کی ویکسین بنانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر احتیاطی طور پر ہومیو ادویات پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔ شیرخوار بچوں کو فرم فاس 6 کا ایک چٹکی سفوف چٹایا جائے جن بچوں کو کھانسی اور نمونیا کی شکایت رہتی ہو انہیں برانی اوینا 30 کے دو، دو قطرے تین مرتبہ دن میں تین بار ایک چمچ میں ڈال کر دیے جائیں۔ بڑوں کو آرسینک البم 30 پانچ پانچ قطرے تین دن تک دیں جو لوگ بار بار دوا لینے میں الجھن محسوس کرتے ہوں، وہ آرسینک CM کا ایک قطرہ زبان کے نیچے ہر پندرہ دن میں ٹپکائیں۔
جو لوگ پاکستان کو بہتی گنگا کہتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ 72 سال تک جو حکمران آئے وہ سب چور، ڈاکو اور لٹیرے تھے۔ ان سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان کے کچھ عرصے تک بھارت کے چار روپے پاکستان کے ایک روپے کے برابر تھے اور آج یہ حال ہے کہ مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن کر مسلسل ترقی کی جانب کیوں؟ اور کیسے؟ گامزن ہے۔ اس کا ایک ٹکا پاکستان کے دو روپے کے برابر ہے اگر طرز حکمرانی یہی رہا تو ہماری کرنسی افغانستان کی کرنسی کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی۔ چور، ڈاکو اور لٹیرے کا راگ الاپنے والے، بنگلا دیش کی کامیابی پر غور کیوں نہیں کرتے۔
بنگلا دیش کے قیام کے چند سال بعد وہاں سے ایک صاحب بہاول پور آتے تھے۔ پریس کانفرنس کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ بنگلا دیش کے عوام پاکستان سے الگ ہوکر پیشمان ہیں اور پھر متحد ہونا چاہتے ہیں تو موصوف نے ایک قہقہہ لگا کر کہا تھا ہم اتنے احمق نہیں کہ پھر غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم آزاد اور خودمختار ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی حاکم ہے، نہ کوئی محکوم ہے، سب کے حقوق یکساں ہیں۔ نصاب بھی یکساں ہے۔ اسکول کا ہر بچہ ایک جیسی وردی پہنتا ہے۔ اسکول کا ہر بچہ سرکاری وین میں جاتا ہے چاہے وہ بچہ وزیراعظم کا ہو یا نائب قاصد کا ہو۔ یہ ہے بنگلا دیش کی ترقی اور کامیابی کا راز اور ہمارے ہاں وزیراعظم خود کو شہنشاہ معظم سمجھتا ہے اور اس کے بچ بل کہ شناسا عوام کو اپنا خادم سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے باد شاہ اور رعایا میں فرق تو ہوتا ہے۔ مقتدر طبقہ حکمرانی نہیں کرتا۔ حکمرانی سے لطف اندوز ہوتا ہے جب تک ان کے رنگ میں بھنگ نہیں پڑتا یہ بھنگ پیتے رہیں گے۔