چیز

794

ہر دن کی طرح اُس دن بھی صبح ہی بیوی سے جھگڑا ہوگیا تھا۔ میں ناشتہ کیے بغیر ہی دکان پر آگیا تھا۔کورونا کی وبا کی وجہ سے مارکیٹیں بند تھیں۔ سناٹا اور بے روزگاری۔ اشیاء صرف کی دکانیں اور میڈیکل اسٹور چند گھنٹے کھلے رکھنے کی اجازت تھی۔ میرا میڈیکل اسٹور شہر کے بڑے بازاروں میں سے ایک میں تھا۔ میں دوپہر میں دکان کے پچھلے کونے میں کھڑے سیل گن رہا تھا کہ سیلز مین نے آکر کہا ’’بھائی وہ عورت جھگڑا کررہی ہے‘‘۔ میں نے پیسے جیب میں رکھے۔ سیل کائونٹر پر جاکر دیکھا۔ وہ عورت عصمت تھی۔ ایک عرصے بعد اُسے دیکھا تھا۔ دل ونگاہ کے منظر بدل گئے۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا۔ نام لے کر بولی ’’یہ تمہارا میڈیکل اسٹور ہے۔ تم تو بہت امیر آدمی ہوگئے ہو‘‘۔ میں نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ بس مسکرا کر رہ گیا۔ اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’عصمت! یہ تم ہو!‘‘ اس کا چہرہ اُداسی اور غم کا ہم سفر تھا لیکن پھر بھی اس کا حسن بکھرا نہیں تھا۔ وہ بڑی پکی پٹھانی تھی۔ پٹھانوں والا رنگ روپ آج بھی اس کے چہرے پر مجتمع تھا۔ سیلز مین نے اس کے دیے ہوئے نسخے کے مطابق دوائیاں نکال دی تھیں۔ مگر عصمت کو قیمت زیادہ لگ رہی تھیں۔ ’’تمہارا سیلز مین دوائوں کے پانچ سو بول رہا ہے۔ پچھلی دفعہ میں نے ساڑھے تین سو کی لیں تھیں‘‘۔ جن دنوں ہم پٹیل پاڑے میں ایک ہی محلے میں رہتے تھے ان دنوں بھی وہ محلے کے دکانداروں سے ایسے ہی لڑ جھگڑ کر قیمت کم کراتی تھی۔ قیمت کم کرنے کی درخواست کرنا اسے اپنی بے عزتی لگتا تھا۔ میں نے پرچہ اس کے ہاتھ سے لیا۔ سیلز مین کو ڈانٹا اور عصمت کی کہی ہوئی رقم سے بھی زیادہ قیمتیں کم کردیں۔ اس نے پیسے دیے تو میں نے بن گنے جیب میں رکھ لیے۔ دل چاہ رہا تھا کہ اس سے پیسے نہ لوں لیکن ایسا کرنے پر وہ دوائیں میرے منہ پر مار دیتی۔ دوائوں کا شاپر اُسے دیا تو میں نے دیکھا اس کے پاس اور بھی کچھ سامان تھا۔ رکشوں کا دور دور پتا نہیں تھا۔ میں نے یہ کہہ کر آدھے سے زائد شاپر اس کے ہاتھ سے لے لیے کہ آئو تمہیں رکشے میں بیٹھا دوں۔
عصمت بڑے مزے مزے کی باتیں کرتی تھی۔ اس کی باتیں اداسی کے ہر موسم پر بھاری
ہوتی تھیں۔ لگ ہی نہیں رہا تھا ہم اتنے عرصے بعد ملے ہیں۔ اسی بے تکلفی سے جو کبھی ماضی میں تھی باتیںکررہے تھے۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا ’’اب تو ہم بوڑھے ہو چلے ہیں اب تو بتا دو تم نے مجھ سے شادی کیوں نہیں کی تھی؟‘‘ ہنستے ہوئی بولی ’’سچ بولوں تم مہاجر ہم پٹھان لڑکیوں کو مرد لگتے ہی نہیں تھے۔ چھوٹا قد، سانولا رنگ، نرمی سے آہستہ آہستہ بولنے والے۔ شیر خان مرد لگتا تھا۔ گورا لمبا چوڑا، غصہ کرنے والا‘‘۔ میںنے کہا ’’شیرخان کا کیا حال ہے۔ تم اُسے بھی تو ڈنڈے سے نہیں مارتیں‘‘۔ ایک مرتبہ اس کے گھر میں چور گھس گیا تھا۔ اس کی آنکھ کھل گئی۔ خوفزدہ ہونے، شور مچانے، بھائی باپ اور گھر والوں کو اٹھانے کے بجائے اس نے ڈانڈا لے کر چورکو مارنا شروع کردیا۔ اتنا مارا کہ شور مچنے اور آنکھ کھلنے پر بمشکل گھر والوں نے چور کو اس سے بچایا۔ صبح پولیس چور کو پکڑ کر لے جانے لگی تب بھی وہ خوفزدہ نظروں سے عصمت کو دیکھ رہا تھا۔
میں نے پھر شیرخان کا پوچھا۔ اس بار بھی عصمت نے جواب نہیں دیا حالانکہ وہ مخاطب کی بات ختم ہونے سے پہلے جواب پکڑانے والوں میں سے تھی۔ میں نے پھر سوال دہرایا تو بولی ’’بتانا ضروری ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’ہاں‘‘ اس نے میری طرف دیکھا اور آہستگی سے بولی ’’مرگیا، دو تین سال ہوگئے ہیں لیکن دیکھو ہمدردی مت کرنا۔ تم مہاجر جب تک ایک گھنٹہ ہمدردی نہ کرلو تمہیں چین نہیں پڑتا‘‘۔ میں نے بات بدلنے کے لیے کہا ’’تم نے اُسے بھی تو ڈنڈے سے نہیں مارا تھا‘‘۔ ہنستے ہوئے بولی ’’ایک دفعہ غصے میں اس پر ڈنڈا اُٹھا لیا تھا۔ اس نے ڈنڈا میرے ہاتھ سے چھین لیا اور اتنا ہنسا اتنا ہنسا کہ زمین پر لیٹ گیا۔ میں بھی ہنس پڑی۔ بولا ’’سارا محلہ مجھ سے ڈرتا ہے اور تو بیوی ہوکر مجھ پر ڈنڈا اُٹھا رہی ہے‘‘۔ اس کے چہرے پر درد ہی درد تھا۔ میں نے پوچھا ’’گزارا کیسے ہوتا ہے؟‘‘ بولی ’’بڑا لڑکا رکشہ چلاتا تھا۔ کرایہ کا رکشہ تھا۔ تھوڑے بہت پیسے لے آتا تھا۔ کئی سال سے ہیروئن کے چکر میں پڑ گیا پتا نہیں کہاں مرا پڑا ہوگا‘‘۔ میں نے پوچھا ’’کیا مطلب‘‘ بولی ’’پڑیا کے لیے گھر میں چوریاں کرنے لگا تھا میں نے مارکر گھر سے نکال دیا‘‘۔
ہم دونوں آہستہ آہستہ چلے جارہے تھے۔ رکشوں کا دور دور پتا نہیں تھا۔ میں نے پوچھا ’’پھر گھر کیسے چل رہا ہے‘‘۔ بولی ’’سلائی کرتی ہوں۔ ایک بات کہوں تمہاری کوئی بیٹی ہے‘‘۔ میں نے کہا ’’ہاں ایک بیٹی ہے‘‘۔ بولی ’’اسے کپڑے سینا مت سیکھنے دینا۔ سلائی مشین لے کر مت دینا۔ یہ سلائی مشین بڑی ذلیل چیز ہے۔ ایک بار اس سے تھوڑا بہت کمانے لگو یہ اپنا عادی بنا لیتی ہے۔ ہاتھ ذرا سا تنگ ہوا سلائی مشین لے کر بیٹھ گئے۔ خوش حالی گھر میں آتی بھی ہے تو عورت کو کپڑے سیتے دیکھ کر واپس پلٹ جاتی ہے۔ شیرخان نے کبھی مجھے سلائی مشین کو ہاتھ لگانے نہیں دیا۔ وہ مرگیا تو بیٹے کا آسرا ہوگیا۔ وہ ایک دن پیسے لاتا تھا دودن نہیں۔ مجبوراً برسوں سے کونے میں رکھی سلائی مشین نکالی، اسے تیل دیا اور محلے والوں کے کپڑے سینا شروع کردیے۔ پہلے تو سلائی کم آتی تھی لیکن پھر اچھی خاصی آنے لگی۔ گزارا ہونے لگا۔ جب سے یہ کورونا شروع ہوا ہے۔ سلائی آنا بھی بند ہوگئی ہے۔ گھر میں بچوں کی چیز کی چھوٹی سی دکان کھول رکھی ہے۔ اس کا سامان بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ یہ تھیلے اسی سامان کے ہیں‘‘۔
میں نے پھر پوچھا ’’اب گھر کیسے چل رہا ہے‘‘۔ وہ چڑ گئی غصے سے بولی ’’کوئی اور بات نہیں کرسکتے۔ سب لوگوں کی طرح تم بھی یہی سوال کیے جارہے ہو۔ کچھ نہیں ہوگا تو گھر میں تندور کھول لوں گی۔ جسے دیکھو اس بکواس کے سوا کوئی کام ہی نہیں ہے۔ اللہ ہے نا۔ اللہ تو کہیں نہیں چلا گیا۔ کبھی کسی چڑیا کو کسی پرندے کو بھوک سے مرتے دیکھا۔ صبح اپنے گھونسلوں سے خالی پیٹ نکلتے ہیں۔ شام کو واپس آتے ہیں تو پیٹ بھرے ہوتے ہیں۔ سب کا دماغ خراب ہوگیا ہے جسے دیکھو کورونا کورونا، بھوک بھوک۔ جسے دیکھو امداد لے کر چلا آرہا ہے۔ پہلے ہی شہر میں اتنے بھکاری تھے۔ اب بھکاریوں کی ایک نئی نسل پیدا کردی ہے۔ گاڑیاں بھر بھر کر تھیلے لاتے ہیں۔ پھینک کر چلے جاتے ہیں۔ لوگ بھی دوڑے چلے آتے ہیں۔ جن کے گھر میں دس دن کا راشن نہیں ہوتا تھا، چھ چھ مہینے کا راشن بھر گیا ہے۔ کراچی میں بھکاریوں کا سیزن لگ گیا ہے‘‘۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’تم نے بھی کچھ راشن جمع کیا‘‘۔ غصے سے بولی ’’پھر وہی بکواس! بہت ماروں گی میں اب بھی وہی عصمت ہوں۔ ایک دفعہ کچھ لوگ امدادی سامان لے کر آئے تھے میں نے ڈنڈا اٹھایا بھاگ گئے‘‘۔ میں نے کہا ’’اب تو حکومت بارہ بارہ ہزار دے رہی ہے۔ وہ تو امداد نہیں لوگوں کا حق ہے‘‘۔ بولی ’’ہاں وہ بھی آئے تھے شناختی کارڈ اور ٹیلی فون نمبر مانگ رہے تھے۔ میں ڈنڈا اٹھا کر لپکی پھر لوٹ کر نہیں آئے‘‘۔
میں نے کہا ’’یاد ہے پچپن میں جب ہمارا جھگڑا ہوا کرتا تھا تو ہم کس طرح ایک دوسرے کو مارتے تھے۔ لڑائی کے بعد کئی کئی گھنٹے آپس میں بات نہیں کرتے تھے لیکن پھر نہ تمہیں چین پڑتی تھی نہ مجھے۔ میں تمہارے لیے چیز لے کر آتا۔ تمہیں دیتا تو تم غصے سے پھینک دیا کرتی تھی۔ میرے بہت منانے پر تم چیز لے لیتیں۔ پھر ہم دونوں کیسے مزے لے لے کر کھاتے تھے۔ وہ چیزیں یاد ہیں تمہیں۔ ایک چیز آج بھی جیب میں رکھی ہوئی ہے۔ دیکھو ناراض مت ہونا یہ چیز لے لینا۔ میں تمہارے گھر آئوں گا پھر ہم دونوں یہ چیز اکٹھے بیٹھ کر کھائیں گے‘‘۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ سیل کے سارے پیسے اس کی طرف بڑھا دیے۔ وہ آگ بگولہ ہوگئی ’’بہت ماروں گی واپس رکھو، واپس رکھو انہیں‘‘۔ اس سے پہلے کہ وہ غصے میں آکر پیسے میرے منہ پر ماردیتی ’’میں نے کہا قسم لے لو چیز ہے ویسی ہی جیسے ہم بچپن میں ایک دوسرے کودیتے تھے۔ تمہارے شیرخان کی قسم، چیز ہے۔ سمجھو شیرخان نے بھیجی ہے‘‘۔ شیر خان کے نام سے وہ کچھ نرم پڑگئی۔ بولی ’’سچ کہو چیز ہی ہے نا‘‘۔ میں نے کہا ’’سو فی صد چیز ہے‘‘۔ بولی ’’پھر لے لیتی ہو۔ چیز امداد نہیں ہوتی۔ محبت ہوتی ہے‘‘۔