کراچی(اسٹاف رپورٹر)اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ نے ماہِ رمضان کی آمد کے تناظر میں ملک بھر میں مساجد کھولنے اور باجماعت نمازیں ادا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
یہ اعلان اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ کے زیر اہتمام آج بروزمنگل کراچی پریس کلب میں ہونے والے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کے مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا گیا۔
پریس کانفرنس میں پڑھے گئے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ’ایک مسلمان کے لیے مسجدوں میں نماز اور جمعہ کا اجتماع ایک اہم ضرورت ہے۔
خاص طور پر رمضان میں مسجد کی حاضری اور باجماعت نماز نہ صرف ایک ضرورت ہے، بلکہ اس آزمائش کے موقع پر وبا کو دور کرنے کا ایک اہم سبب ہوسکتا ہے، اس کو حتی الامکان احتیاطی تدابیر کے ساتھ جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔
تاہم پریس کانفرنس کے بعد جب اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ کے سربراہ مفتی منیب الرحمن کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے صحافیوں کو بتایاعلماء نے محض مطالبات کیے ہیں،اصل فیصلہ حکومت کو کرنا ہے۔
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے عائد تین یا پانچ افراد کی پابندی باجماعت نماز کے انعقاد کے حوالے سے قابلِ عمل ثابت نہیں ہورہی ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جس وقت کراچی میں علماء کرام پریس کانفرنس میں آگے کا لائحہ عمل بیان کر رہے تھے،اسی وقت وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ حکومت آنے والے دنوں میں علماء کرام سے مشاورت کر کے مساجد کو کھولنے کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔
علاؤہ ازیں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے بھی کہا ہے کہ 18 اپریل کو علماء کرام کے ساتھ مشاورت اور مفاہمت کے بعد رمضان المبارک میں تراویح، اعتکاف اور نماز جمعہ سمیت باجماعت نمازوں کے بارے پورے ملک کے لیے متفقہ فیصلہ کیا جائے گا۔
پیر نور الحق قادری نے تمام مکاتبِ فکر کے علماء سے انفرادی اور مقامی فیصلوں سے اجتناب کرتے ہوئے اتفاق اور اتحاد کے فضا کو فروغ دینے کی ضرورت پہ زور دیا۔
وفاقی وزیر نے یقین دلایا کہ حکومت کورونا سے محفوظ اور عبادات سے بھر پور رمضان کے لیے اقدامات کرے گی اور اس معاملے پہ تمام مسالک کے جیّد علماء اور دینی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
تاہم وزیر اعظم اور وفاقی وزیر کے ان بیانات سے پہلے ہی اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ سے منسلک علماء نے پریس کانفرس کر کے مساجد کھولنے کا اعلان کر دیا تھا۔
مفتی منیب کے ترجمان مفتی عبدالرزاق نے صحافیوں کو بتایا کہ حکومتی نمائندوں کی جانب سے اس پیش رفت کے حوالے سے پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ کی جانب سے اس سے پہلے بھی وعدہ خلافی کی گئی ہے اور گورنر ہاؤس میں علماء سے ملاقات میں جن باتوں پہ اتفاق رائے ہوا تھا،اس پہ صدقِ نیت سے عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ علماء کرام کی جانب سے آج ہوئی پریس کانفرنس حکومت کے خلاف کسی قسم کا الٹیمیٹم نہیں ہے،یہ علماء کی جانب سے تجاویز اور مطالبات ہیں،انہوں نے اپنی بات کہہ دی ہے اب دیکھنا ہے کہ حکومت کا ردعمل اس حوالے سے کیا ہوتا ہے۔
علماء کے اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ کورونا وائرس سے احتیاطی تدابیر میں میل جول کم کرنا ،بلاضرورت اجتماع سے منع کرنا بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہےجس کی سب کو پابندی کرنی چاہیے،لیکن لازمی سروسز قرار دیے گئے شعبوں میں احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہورہا ہے،اور سپر مارکیٹ، بنک اور ضروریات کی تقسیم کے دوران کثیر تعداد میں لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔اس میں لوگوں کو مناسب فاصلے کے ساتھ ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کرایا جائے۔
اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ کی جانب سے مساجد میں نماز اور تراویح کے اجتماعات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیئے مندرجہ ذیل طریقِ کار تجویز کیا گیا ہے:
احتیاطی تدابیر کے ساتھ مساجد کھلی رہیں، اُن میں پنج وقتہ نماز باجماعت ، نمازِ جمعہ جاری رہے
جو لوگ بیمار ہیں، یا وائرس سے متاثر ہیں ، یا انکی عیادت پر مامور ہیں، وہ مسجد میں نہ آئیں۔
معمّر حضرات اپنے آپ کو مسجد میں آنے سے معذور سمجھیں
مسجدوں سے قالین ہٹا کر اُن کو ہر نماز کے بعد حتی الامکان جراثیم کش ادویہ سے دھویا جائے۔
مسجدوں کے دروازے پر حتی الامکان سینی ٹائزرز لگانے کا اہتمام کیا جائے۔
مسجد کی صف بندی میں اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ دو صفوں کے درمیان ایک صف کا فاصلہ ہو، اور ایک صف میں بھی مقتدی مناسب فاصلے کے ساتھ کھڑے ہوں۔
تمام حضرات وضو گھر سے کر کے آئیں، ہاتھ صابن سے دھو کر اور حتی الامکان ماسک پہن کر آنے کا اہتمام کریں۔
سنتیں بھی تمام لوگ گھر سے پڑھکر آئیں، اور باقی سنتیں اور نفلیں گھروں میں جا کر پڑھیں۔
نمازِ جمعہ میں اردو تقریر بند کردی جائے۔ اگر ضرورت ہو تو صرف پانچ منٹ کے لیے لوگوں کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جائے۔
مفتی عبدالرزاق نے بتایا کہ حکومتِ سندھ نے کہا تھا کہ مساجد کے آئمہ کرام اور مسجد انتظامیہ کے خلاف پہلے سے درج ایف آئی آرز غیر مشروط طور پر واپس لی جائیں گی اور آئندہ ان کے خلاف ایف آئی آر نہیں کاٹی جائیں گی۔
لیکن حکومت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جس سے باہمی اعتماد واتحاد مجروح ہوا۔ آئندہ ایسی کارروائیوں کا اعادہ نہ کیا جائے اور حسبِ وعدہ عمل کرتے ہوئے تمام ایف آئی آر واپس لی جائیں ، اور گرفتار شدہ آئمہ کرام کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
دوسری جانب حکومت 18 اپریل کو اس حوالے سے اجلاس منعقد کرے گی جس میں صوبائی گورنرز اور صدر آزاد کشمیر بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوں گے،جب کہ اجلاس کی سربراہی صدر ڈاکٹر عارف علوی کریں گے۔
وفاقی وزیرِ برائے مذہبی امور کا کہنا ہے کہ حکومت مساجد کی آبادی، رمضان المبارک کے روحانی ماحول اور نمازیوں کی زندگی اور صحت سب کو اہمیت دے رہی ہے۔