کراچی(رپورٹ:منیرعقیل انصاری)کورونا وائرس کےباعث جاری لاک ڈاؤن سےاورنگی ٹاون میں اپنے گھروں سے کاروبارچلانےوالوں کا کارخانہ25 روز بند ہے۔
ہنرمندافرادکے کاروبار بندہونے کی وجہ سے ان کی نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔اورنگی ٹاون اپنے قیام سے لیکرآج تک بنیادی سہولیات سےمحروم ہے۔
جبکہ لاک ڈاؤن کےباعث بے روزگاری میں تیزی سے اضافے کےساتھ غربت کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
اورنگی ٹاؤن میں آج بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ،سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور کچرا اورنگی کی حالت سوالیہ نشان بن ہوئی ہے اورنگی کے باسيون کے مسائل اس پہاڑ کی بلندی کی طرح بلند ہيں جن کو حل کرنے کے لئے حکمرانوں کو سنجيدگی سےعمل کرنا ہوگا۔
ان میں کاغذوں کے پھول بنانا،درزی کاکام،کارچوپی،پی کیپ،سفری بیگ،مردوخواتین لیدر پرس،بنارسی سڑھیاں،دولہے کی شیروانی،عروسی جوڑےپر کڑائی،جوتوں کاکام،موم بتی،اگربتی بنانا،گارمنٹس،کھانے پینے کی مصنوعات کی پیکنگ،گھر سے کھانا بنا کرسپلائی کا کام،اوراس طرح کے دیگر کام ہے جو وہ اپنے گھروں پر کرتے ہیں۔
جبکہ کے دیگر ضروریات زندگی کا کاروبار بھی سو فیصد ٹھپ ہو چکا ہے۔اورنگی ٹاون کے رہائشیوں کا زیادہ تر زریعہ معاش اورنگی ٹاون کے حدود سے ہی وابستہ ہےاورگھر کےمرد وخواتین اور نوجوان سب مل بانٹ کر کام کرتے اور ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
شمائلہ بیگم کے تین بچے ہیں اور سب سے چھوٹا بیٹا پیدائشی معذور ہے۔ان کے شوہر ایک نجی کمپنی میں معمولی ملازم ہیں۔
اورنگی ٹاون 15 نمبر بنگلہ بازار کی رہائشی شمائلہ بیگم نےجسارت سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اُن کا کام مکمل طور پر بند ہے۔
انہوں کہا کہ اس سیزن میں عید کے کپڑوں کی سلائی کے لیے بکنگ شروع ہو جاتی تھی،لیکن ابھی تک کسی گاہک نے بکنگ کے لیے رابطہ نہیں کیا ہے۔
اپنے معذور بیٹے سے متعلق انہوں نے بتایا کہ علاج معالجےاور ماہانہ دوائیوں کے لیے 4 سے 5 پانچ ہزار چاہیے ہوتے ہیں،اور اُن کے شوہر کی تنخواہ 20 ہزار روپے ہے، جس میں مشکل سے گھر کا خرچہ پورا ہوتا ہے۔
اسی تنخواہ میں سے گھر کا کرایہ بھی دینا ہوتا ہے۔اوریہ کہانی اورنگی ٹاون کےایک گھر کی نہیں ہےبلکہ شمائلہ بیگم جیسی کئی ایسی خواتین ہیں جو گھر کا خرچہ چلانے کے لئےاپنا کاروبار کررہی ہیں اور اپنے شوہر کی مدد کر رہی ہیں یا پھر خود پوری فیملی کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں۔
اسی طرح اورنگی ٹاون 9 نمبر میں بنارسی ساڑھی کا کام کرنے والے محمود انصاری کی بھی ایسی ہی کہانی ہےجن کا کاروبار کورونا وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد سے بندہے۔
انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اورنگی ٹاون کی بنارسی مارکیٹ پاکستان میں بنارسی ملبوسات کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔
ملک کے کونے کونے تک پہنچنے والے تمام بنارسی ملبوسات یہیں سے ہوکر گزرتے ہیں۔گھر گھر تیار ہونے والے بنارسی ملبوسات کی تیاری میں مرد، عورت اور نوجوان سب اس کام کو مل بانٹ کر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری بنارسی مارکیٹ سے دوبئی سمیت دیگر ملکوں کو بھی بنارسی ملبوسات برآمد کئے جاتے ہیں۔لیکن 25 روز سےلاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے ہمارا کاروبارمکمل طور پرٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔
شازیہ بیگم جو کاغذ کے پھولوں کو پرونے کا کام کرتی ہیں گذشتہ 25 دن سے کام بند ہونے کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
اورنگی ٹاون کی رہائشی کلثوم غنی جو اپنےگھر پر کھانا تیا ر کرکے دفتروں میں بھیجواتی ہیں،25دن سے جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام دفاتر بند ہیں۔
25روز سےجاری لاک ڈاؤن کے باعث اورنگی ٹاون کے متعدد گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔
اورنگی ٹاؤن میں اپنے چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے والوں نےحکومت سے اپیل کی ہے کہ15اپریل کے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی کی جائے تاکہ ان کا کاروبار ایک مرتبہ پھر شروع ہو جائے۔