وزرا اور مشیروں کا بوجھ کم کیا جائے

457

بلوچستان ہائیکورٹ نے صوبائی کابینہ میں شامل معاونین خصوصی کا تقرر غیر آئینی قرار دیتے ہوئے نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس سے قبل بلوچستان کے 4 وزرا استعفیٰ دے چکے ہیں۔ بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ ہمارے کام معمول کے مطابق چل رہے ہیں پاکستان کی سب سے چھوٹی کابینہ والے صوبے میں چار وزرا اور چھ معاونین خصوصی کے بغیر حکومت چل رہی ہے۔ اگر ان وزرا اور معاونین خصوصی کے بغیر حکومت چل سکتی ہے اور اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر پاکستان کے دیگر صوبوں اور مرکز کی کابینہ میں موجود غیر ضروری وزرا، مشیروں اور معاونین خصوصی کا بوجھ بھی کم کیا جانا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ نے بھی توجہ دلائی ہے کہ وفاقی کابینہ پر مشیروں اور معاونین کا قبضہ ہے۔ دراصل یہ تعداد مختلف پارٹیوں کو کھپانے اور ان کو راضی رکھنے کے لیے بڑھائی جاتی ہے۔ یہی بوجھ قومی خزانے کو مزید نقصان پہنچاتا ہے۔ دیگر صوبے بھی بلوچستان کی پیروی کریں۔ ایک اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ کورونا کے حوالے سے حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کرکے رقم فنڈ میں ڈال دی ہے لیکن ارکان اسمبلی، وزرا اور مشیروں اور معاونین خصوصی کے بارے میں ایسی کوئی اطلاع نہیں۔ صدر وزیراعظم کابینہ اور ارکان پارلیمنٹ کو بھی اس حوالے سے ایثار کرنا چاہیے۔ ارکان اسمبلی تو اجلاس میں بھی نہیں جا رہے۔ یہ لوگ تو بڑی آسانی سے اپنی تنخواہوں میں اضافہ بھی کروا لیتے ہیں۔ مرکزی کابینہ بھی رفتہ رفتہ بھاری بھرکم ہوتی جا رہی ہے جبکہ پنجاب کابینہ میں بھی علیم خان کی شمولیت سے اضافہ ہی ہوا ہے۔ کوٹے پر آنے والے وزرا، مشیر اور معاونین خصوصی اپنے مناصب کا ناجائز استعمال بھی کرتے ہیں۔ اب تو یہ بات عام ہے کہ وزارت بھی مفت میں نہیں ملتی۔ کہیں نہ کہیں ادائیگی کی جاتی ہے۔ اگر ہمارے حکمران پیسے دے کر وزارتیں لیں گے تو پیسے ہی وصول بھی کریں گے۔ ایک جانب عوام کی حالت تباہ ہو رہی ہے اور دوسری جانب حکمران اپنی عیاشیوں میں کسی قسم کی کم پر تیار نہیں۔ یہ بوجھ بھی قومی خزانے ہی پر پڑتا ہے۔ یہی حکمران اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو بڑی کابینہ پر اعتراض کرتے ہیں اور خود حکومت میں آتے ہیں۔ بڑی کابینہ بناتے ہیں اور اس میں اضافہ بھی کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ روکنے کی ضرورت ہے۔ حکمران اپنے دعووں اور عمل میں تضاد پر بھی توجہ دیں۔