لاک ڈائون میں توسیع۔ مبہم رعایتیں

400

تمام تر اندیشوں کے عین مطابق ملک میں کورونا کے حوالے سے جاری لاک ڈاؤن میں اپریل کے خاتمے تک توسیع کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ اس کا اعلان وزیر اعظم نے تمام صوبوں سے مشاورت کے بعد اپنے خطاب میں کیا تاہم انہوں نے ایک حد تک لاک ڈاؤن میں نرمی کا بھی اعلان کیا ۔ سرکاری اعلان کے مطابق تعلیمی ادارے اور تمام عوامی مقامات بدستور بند رہیں گے جبکہ تعمیراتی صنعت ، کیمیکلز مینوفیکچرنگ پلانٹس، ای کامرس، ایکسپورٹس اور لوکل سافٹ وئیر ڈیولپمنٹ پروگرامنگ، پیپر، سیمنٹ، فرٹیلائزرز، مائنز، منرلز، لانڈری ، پودوں کی نرسری، زراعت کی مشینری اور آلات بنانے والے کارخانوں ، شیشہ فیکٹریوں ، جانوروں کے اسپتال اور برآمدی صنعت کو کام کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں اس امر کو تسلیم کیا کہ پاکستان میں وہ صورتحال نہیں ہے ، جس کے اندیشے تھے ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان میں کورونا سے وہ تباہی نہیں پھیلی جس کا شکار پوری دنیا ہوئی ۔ اسپین اور ایران جیسے ممالک نے جو کورونا سے شدید متاثرہ تھے ، اپنے ملک میں لاک ڈاؤن یا تو ختم کردیا ہے یا پھر اتنا نرم کردیا ہے جس سے ان ممالک میں معمولات زندگی بحال ہورہے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں حالات ایک مرتبہ بھی قابو سے باہر نہیں ہوئے ۔ اب تک جتنی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے ، ان میں سے اکثر پہلے سے ہی کسی نہ کسی سنگین بیماری کا شکار تھے اور قریب المرگ تھے ۔ ان حالات میں تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ فوری طور پر ملک میں لاک ڈاؤن میں نرمی کی جاتی تاکہ پاکستان میں اور خصوصی طور پر کراچی میں معاشی سرگرمیاں بحال ہوسکیں ۔ اس کے برخلاف کراچی میں پوری کی پوری آبادیوں کو لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے ۔ جن آبادیوں کو لاک ڈاؤن کیا گیا ہے ، اس آبادی کو علم ہی نہیں ہے کہ ان کے علاقے میں کہاں پر اور کتنے کورونا کے مریض پائے جاتے ہیں ۔ اصولی طور پر تو صرف اس گھر کو آئسولیشن میں رکھا جاتا ، جس میں کورونا کے تشخیص شدہ مریض رہتے ہیں ۔پوری آبادی کو لاک ڈاؤن کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں کے لوگ آپس میں مل جل بھی رہے ہیں ، ان کے بچے گلی میں بھی کھیل رہے ہیں ، محلے کی دکانیں بھی کھلی ہیں اور لوگ اپنے کام کاج پر بھی آ اور جا رہے ہیں ۔ اس سے ایسا تاثر ابھرتا ہے کہ کورونا سے بچاؤ کے لیے لاک ڈاؤن مقصود نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف کراچی کی معاشی سرگرمیوں کو منجمد کرنا ہدف ہے ۔وفاقی حکومت نے اب کورونا میں نرمی کے لیے جن صنعتوں کو کھولنے کا اعلان کیا ہے ، اس میں بھی ابہام ہے ۔ تعمیراتی صنعت کو کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے تو یہ تعمیراتی صنعت ملحق کاروبار کے کھلے بغیر کیسے کام کرے گی ۔ کیا ریتی بجری کے ٹرکوں کو بھی چلنے کی اجازت دی گئی ہے اور تعمیراتی صنعت میں صرف چنائی اور پلاستر کا ہی کام نہیں ہوتا ۔ سینیٹری ، سینیٹری ویئر، بجلی کا سامان ، پلمبنگ کا سامان ، ٹائلز، ٹمبر وغیرہ وغیرہ کے بغیر تعمیرات کرنے والے بھلا کس طرح کام کرسکیں گے ۔ تعمیرات کے لیے نقشے، رجسٹرار آفس، دیگر دفاتر کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ ڈھابے اور چائے خانے بند ہیں تو سائیٹ پر کام کرنے والے مزدور وغیرہ کہاں سے کھانا وغیرہ کھائیں گے ۔ جب مکینک کھلیں گے تو وہ اسپیئر پارٹس کہاں سے خریدیں گے ۔ پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے تو یہ غریب محنت کش کس طرح سے اپنے کام پر پہنچ پائیں گے ۔ اس طرح کے بے شمار سوالات ہیں جن کے کہیں پر جوابات نہیں ہیں ۔ لاک ڈاؤن کے نتائج سب کے سامنے ہیں کہ ائر بلیو جیسی فضائی کمپنی نے اپریل کی تنخواہوں میں 95 فیصد تک کی کٹوتی کا اعلان کیا ہے ۔ اسی طرح متعدد اداروں نے اپنے ملازمین میں کٹوتی کردی ہے ۔ بے روزگاری کے عفریت نے پہلے سے پاکستان کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے ۔ ایسی صورت میں مزید بے روزگاری کیا گل کھلائے گی ، وہ سب کے سامنے ہے ۔ یہی وجہ ہے کراچی میں چھوٹے تاجروں کے نمائندوں نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق منگل کو اعلان کیا کہ حکومت لاک ڈاؤن ختم کرے یا نہ کرے ، وہ کاروبار کھول لیں گے بعد میں یہ فیصلہ دو دن کے لیے ملتوی ہو گیا۔ اسی طرح مرکزی انجمن تاجران نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بہتر ہوگا کہ سندھ حکومت ضد سے کام نہ لے اور عوامی اضطراب کو ہنگاموں میں تبدیل ہونے سے پہلے ہی سمجھ بوجھ سے کام لے ۔ اسی طرح علماء کرام نے سندھ بھر میں مساجد کو بھی کھولنے کا اعلان کردیا ہے ۔ ان علماء کرام کا کہنا ہے کہ حالات ایسے نہیں ہیں کہ عوام کو باجماعت نماز سے روکا جائے ۔ تین ہفتے ہوچکے ہیں کہ حکومت نے نماز جمعہ پر پابندی عاید کر رکھی ہے ۔ 24 اپریل سے رمضان المبارک شروع ہورہے ہیں ۔ رمضان المبارک کا مطلب ہی عبادات میں اضافہ ہے ۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے غیر ضروری پابندیاں مزید اضطراب کا سبب بن رہی ہیں ۔ ایک عام آدمی روز ہی یہ مشاہدہ کرتا ہے کہ راشن بانٹنے کے نام پر ہجوم جمع کیا جاتا ہے ، مندروں میں ہزاروں ہندو زائرین کو جمع ہونے کی اجازت ہے ، احساس پروگرام کے نام پر ہزاروں افراد روز ہی لائن لگائے کھڑے ہوتے ہیں ، بس ساری پابندی ہے تو باجماعت نماز پر اور تلاش معاش پر ۔ جو خطرات تلاش معاش اور باجماعت نماز سے درپیش ہوسکتے ہیں تو وہ راشن بانٹنے ، احساس پروگرام کی لائنیں لگانے اور مندر میں گھنٹوں ہندو زائریں کے جمع ہونے سے بھی ہوسکتے ہیں ۔ اسے محض حکومت کی دو رنگی ہی کہا جاسکتا ہے ۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ پراسرار گائیڈ لائن پر چلنے والا مین اسٹریم میڈیا بھی لاک ڈاؤن میں نرمی پربری طرح برا فروختہ ہے۔ جس طرح سے میڈیا یکطرفہ کوریج کررہا ہے ، اس کا پیمرا کو نہ صرف نوٹس لینا چاہیے بلکہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی بھی کی جانی چاہیے ۔