مظفرالحق فاروقی
میں نے جان بوجھ کر اپنے کالم کی سرخی ایسی رکھی ہے جو پڑھنے والے کو متوجہ کرسکے ورنہ پہلے سوچا تھا اس کالم کی سرخی یہ رکھوں۔ ’’ثقلین مشتاق صاحب یہ وقت توبہ استغفار کا ہے نہ کہ عورت کا روپ دھار کر شہرت حاصل کرنے کا‘‘۔ اس سرخی کا فائدہ یہ ضرور ہوتا کہ سابق ٹیسٹ کرکٹر ثقلین مشتاق صاحب اس کالم کو ضرور پڑھ لیتے۔ اب جب یہ کہا جائے گا کہ روزنامہ جسارت میں آپ کے عورت کا روپ دھار کر ٹی وی چینلز اور نیٹ پر جو ویڈیو چلائی گئی اس پر کالم شائع ہوا ہے تو آپ ضرور پڑھتے۔ اس تمہید کے بعد کالم کی ابتدا کرتے ہیں۔ آج پوری دنیا کو جو تقریباً 200 ممالک اور کوئی ڈھائی کروڑ مربع میل رقبہ پر مشتمل ہے (زمینی رقبہ) کورونا کا مرض، وبا یا عذاب اپنی گرفت مضبوط کرتا جارہا ہے۔ روئے زمین پر بسنے والے پورے سات ارب انسان بے بسی کی تصویر بنے اس مصیبت سے بچنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ کورونا کا خاموش دشمن ہر روز تقریباً 5 ہزار انسانوں کو نگل رہا ہے۔ اس وبا یا عذاب سے آج نہ کوئی گورا بچا ہے نہ کالا نہ مسلم بچا ہے نہ غیر مسلم یا کافر۔
اس ماحول میں اگر آپ پوری دنیا کا جائزہ لیں تو آپ کو اس مصیبت سے بچنے یا تدارک کا ایک اور پہلو بھی نظر آئے گا وہ یہ ہے کہ کیوں نہ کھیل کود کر اور ہلہ گلہ کرکے اس غم اور ٹینشن کو ضائع کیا جائے۔ چوں کہ خالق کائنات نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے اسے اشرف المخلوق کا درجہ دیا ہے اس لیے انسان سائنسی طریقہ کار سے ہٹ کر کسی اور طریقے سے بھی اس بلا کے اثرات کو دور کرنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ وہ مر بھی رہا ہے اور ہنس ہنس کر اس مصیبت کا مقابلہ بھی کررہا ہے تا کہ اپنے ذہن کو آنے والے غموں سے دور کرسکے۔ کورونا کے تنائو یا ٹینشن کو دور کرنے کے لیے کوئی گٹار بجاتا نظر آتا ہے تو کوئی ہارمونیم پر دُھنیں بجاتا دکھتا ہے۔ کوئی اپنے گھر کی بالکنی یا کھڑکی میں کھڑا تالیاں بجا کر کورونا کا مذاق اڑاتا نظر آتا ہے تو کچھ کھلاڑی اپنے اپنے گھروں کی چہار دیواریوں میں فٹ بال، کرکٹ یا ٹینس وغیرہ کھیلتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں ٹی وی پر کچھ لوگ ایسے بھی دیکھے جو اپنے گھروں کی چھتوں پر اذانیں دے رہے تھے اور اللہ کو پکار رہے تھے۔
مجھے تو ایسا لگا اور دکھ ہوا ایسے مناظر دیکھ کر کہ ہم مسلمان بھی مغربی ممالک کی نقل کرنے لگے۔ موقع سے فائدہ اٹھانا اور فلم بنا بنا کر ٹی وی پر وائرل کرنے لگے۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر محترم ثقلین مشتاق صاحب نے سوچا میں کیا کروں۔ ایسی حرکت کروں کہ دھوم مچ جائے اور میں نمایاں ہوجائوں۔ اپنی بیٹی کی مدد سے خود کو عورت کا روپ دھارنے کا سوچا۔ گھر میں ایک سرخ رنگ کی بڑی سی وگ (مصنوعی بال) پڑی تھی اس کو سر پر لگا لیا۔ ہونٹوں پر سرخ رنگ کی گہری لپ اسٹک لگوائی۔ گالوں پر غازا لگا آنکھوں پر گہرا آئی برو تھوپ لیا اور چہرے سے مکمل عورت بن گئے۔ یہ بھول گئے کہ عورت کے چہرے پر کالی گھنی ڈاڑھی بنی ہوتی۔ شکر ہے ڈاڑھی مونڈ کر وہ مکمل عورت بننے سے باز رہے۔ لوگوں کو ٹی وی پر ڈاڑھی والی عورت کو دیکھ کر ہنسی ہی آئی ہوگی۔
ثقلین صاحب آپ میرے دینی بھائی ہیں۔ آپ اپنے اندر تبدیلی لائے، آپ دین کی طرف آئے، فرائض اور نبی کریمؐ کی سنتوں کی طرف آئے، آپ نے کرکٹ کی شہرت اور ڈالروں کی چمک دمک کو چھوڑا اور دین کی طرف آئے۔ آپ کا دوست یوسف یوحنا جس نے کرکٹ کی دنیا میں ایک نام بنایا یہ تھی۔ کفر اور شرک کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر اسلام کی وادیوں میں اپنے نئے سفر کا آغاز کیا۔ شاہدہ آفریدی، انضمام الحق، سعید انور، مصباح الحق جیسے کرکٹرز نے ’’دنیا‘‘ سے ہٹ کر ’’دین‘‘ کو اپنی زندگی سے اپنے قریب کرلیا۔ مشتاق صاحب آپ نے تقویٰ کے خلاف قدم اُٹھایا جو آپ کی بدلی ہوئی زندگی سے قطعی مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسے وقت جب پوری امت مسلمہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کورونا اللہ کی ناراضی کا اظہار ہے۔ لوگ دعائوں اور استغفار اور رجوع اللہ کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ آپ نے اپنی بیٹی کے ہاتھوں خود کو عورت بنوا کر ویڈیو فلم وائرل کرنے میں زیادہ تسکین محسوس کی۔
کاش عورت کے روپ میں دیکھنے کے بجائے دنیا ٹی وی کی دو منٹ کی فلم میں یہ منظر دیکھتی کہ سابق کرکٹر ثقلین مشتاق صاحب جائے نماز بچھائے ایک نماز کی امامت کررہے ہیں اور ان کی بیٹی، بیوی اور دوسرے بچے بھی ان کی امامت میں نماز ادا کررہے اور دعائیں مانگ رہے ہیں (کیوں کہ آج گھر پر نمازیں ادا کی جارہی ہیں) مگر ہم نے ایسا کچھ دیکھنے کے بجائے جو کچھ دیکھا اس کو دوبارہ لکھتے ہوئے بھی قلم شرم محسوس کررہا ہے۔ ہم لوگوں کو ٹی وی اور اسٹیج کا ایک فنکار یاد ہے جس کا نام معین اختر تھا۔ انتقال ہوچکا ہے جب برسی آتی ہے ہم دوبارہ دیکھ لیتے ہیں۔ زبردست فنکار اور ایکٹر تھا۔ انتہائی مہارت کے ساتھ ہر روپ اختیار کرلیتا تھا۔ ہم نے اس کو بہاری کے روپ میں دیکھا، پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچی ہر روپ میں دیکھا۔ حتیٰ کہ ایک عورت (ہیڈ مسٹرس) کے روپ میں دیکھا۔ چوں کہ معین اختر صاحب کلین شیو تھے۔ جب وہ اپنے چکنے چہرے کے ساتھ وگ اور عورتوں کے مخصوص میک اپ میں ٹی وی پہ نظر آتے تو پہچاننا مشکل تھا کہ یہ معین اختر ہے۔ آواز اور چہرے سے بالکل عورت لگ رہا تھا۔ مگر مشتاق صاحب آپ ڈاڑھی کے ساتھ اپنی بیٹی کے ہاتھوں عورت بنے تو بالکل برے لگے۔ ثقلین مشتاق جیسا کہ بجائے شروع ہی میں یہ لکھا کہ آپ نے زندگی کو بدلا اللہ آپ کے اس بدلائو کو قبول کرے، ورنہ آج بھی ہم ایسے کرکٹرز یا کھلاڑیوں کو دیکھتے ہیں جن کو دین کی طرف پلٹ آنے کی توفیق نہ ہوئی۔ وسیم اکرم صاحب میرے دینی بھائی ہیں وہ خوش ہیں کہ انہیں آسٹریلین بیوی کے ساتھ ٹی وی کے اشتہارات میں آتے رہتے ہیں، پیسے کماتے ہیں۔ کورونا کی وبا کے بعد جب بہت سے اور کھلاڑی اپنے اپنے انداز میں کورونا کا ’’مقابلہ‘‘ کرتے نظر آئے۔ آپ نے بھی اپنی ’’مشہوری‘‘ کا ایک انداز ختیار کرلیا۔ یہ انداز اگر آپ کے دوست اور ساتھی وسیم اکرم صاحب اختیار کرتے تو وہ آپ سے زیادہ خوبصورت خاتون یا عورت نظر آتے اور سچی بات یہ ہے کہ آپ کی اس ادا یا حرکت سے دل کو جو ٹھیس لگی وہ کسی اور کھلاڑی کی حرکت سے نہ لگتی۔ ثقلین مشتاق صاحب میں آپ کا دینی بھائی ہوں۔ کرکٹ کی دنیا سے الگ ہو کر آپ نے اسلام اور شریعت کو سینے سے لگایا، آپ کی بیٹی نے آپ سے جو غلطی کرائی وہ آپ کی مرضی سے ہوئی۔ میں نے تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کو دین سے بہت قریب دیکھا ہے۔ آخر میں ایک حدیث لکھنا چاہوں گا یہ آپ کے لیے تو ہے ہی بہت سے اور لوگوں کے لیے بھی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے لعنت فرمائی اُن مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی مشابہت ختیار کریں۔ (جامع ترمذی)