سیاسی دلدل

237

بے نظیر انکم سپورٹ کے ذریعے غریب افراد کو جو مالی امداد دی جاتی تھی تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اس اسکیم سے غریبوں کے بجائے بااثر افراد نے دل کھول کر استفادہ کیا یوں یہ اسکیم بہتی گنگا بن گئی جو لوگ ہاتھ دھونا بھی وقت کا زیاں سمجھتے تھے جی بھر کر اشنان کیا اور جب اشنان کا پانی تعفن کا سبب بن گیا تو تحریک انصاف کی حکومت کو ہوش آیا مگر اس نے ہوش کے ناخن لیے بغیر صدارتی آرڈیننس کی طرح اس معاملے میں بھی ایک آرڈر جاری کردیا اور اس کے بارے میں انکوائری کا ڈول ڈال دیا جس نے بہت ہی ہوش ربا انکشافات کیے اور بے نظیر انکم سپورٹ کو ایک نئے انداز میں متعارف کرایا گیا۔
سوال یہ ہے کہ حکومت نے یہ کیسے طے کیا کہ کون امداد کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے حالانکہ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کے لیے ملک کے اعلیٰ ترین دماغوں کی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ بیت المال سوشل ویلفیئر اور مخیر حضرات سے مشورہ کیا جاسکتا تھا ہمیں یاد ہے جب تک بہاول پور کے معروف سیاست دان چودھری عبدالمجید زندہ رہے بیوائوں اور یتیم بچوں کو ہر ماہ 500سو روپے دیا کرتے تھے مگر ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد نے اس عمل کو فضول اور احمقانہ فعل سمجھ کر مسترد کر دیا مگر اس ضمن میں اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے کہ بیت المال اور سوشل ویلفیئر سے متعلق عملہ دودھ کا دھلا نہیں۔ پیسے کی ہوس کے مارے ہر جگہ پائے جاتے ہیں جو اپنے سرکا استعمال کرکے سری پائے کا ناشتہ کرتے ہیں۔
بہاول پور کے نابینا شاعر ظہور آثم نے بیت المال اور سوشل ویلفیئر سے مالی امداد کی بارہا استدعا کی گئی مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ بہت سے ایسے گھرانے ہیں جن کی آمدن برائے نام ہے لیکن وہ بھی جی رہے ہیں۔ قومی المیہ یہی ہے کہ حکمران طبقہ خود کو عقل کل سمجھتا ہے پارسائی کے زعم میں سیاسی دلدل میں اتنا پھنس جاتا ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔ قائداعظم کہلوانے والوں کو قوم غدار اعظم سمجھنے لگی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ریاست کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں ان کی نظر میں سیاست کی مضبوطی ریاست کی کمزوری ہے۔ اب یہ بات کون سمجھائے کہ سیاست کمزور ہوتو حکومت اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہوتی ہے اور اگر حکومت معذور ہوتو ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ عمران خان کی سیاست ایسا چراغ ہے جس کے نیچے ہی نہیں اوپر بھی اندھیرا ہے۔ پاکستان کا قیام قائداعظم کی مضبوط سیاست کا ثمر ہے۔