لاک ڈائون پر حکومت سندھ کا مخمصہ

543

حکومت سندھ ایک مخمصے کا شکار ہو گئی ہے۔ پہلے وزیراعلیٰ نے کہا کہ لاک ڈاؤن کا معاملہ وفاق پر چھوڑ دیا ہے اور اس معاملے میں وفاق جو بھی فیصلہ کرے گا ، اس پر سختی سے عمل کیا جائے گا ۔ اب وفاق نے چاروں صوبوں کی مشاورت سے لاک ڈاؤن میں توسیع کے ساتھ ہی مخصوص کاروباری سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دی ہے تو ایک دن کے بعد سید مراد علی شاہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس نرمی کو نہیں مانیں گے اور سندھ میں خصوصی طور پر کراچی میں لاک ڈاؤن میں سختی کی جائے گی ۔ اب تک تو موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر ہی پابندی عاید تھی ، اب اس میں مزید اضافہ کردیا گیا ہے کہ ڈبل سواری پر پابندی کا اطلاق میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد پر بھی ہوگا ، اس پابندی کا اطلاق بچوں پر بھی کیا جائے گا ۔ سندھ میں لاک ڈاؤن کو تین ہفتے سے زاید عرصہ گزرچکا ہے ۔کورونا کے جرثومے کا انکیوبیشن کا عرصہ دو ہفتے کا ہوتا ہے ۔ سندھ میں توپہلا کیس 26 فروری اس وقت سامنے آیا تھا جب یحییٰ جعفری میں کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا ۔ اس طرح سے تو کراچی میں کورونا کے انکیوبیشن پیریڈ کا دگنے سے زاید عرصہ گزرچکا ہے ۔ اس کے باوجود وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ضد سمجھ سے بالاتر ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کرتے ہوئے بتدریج ختم کرنے کا راستہ اختیار کیا جاتا ، اس کے بجائے ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤم میں مزید سختی کی جائے گی ۔ ملک کی دس فیصد سے زاید آبادی صرف کراچی میں ہی رہتی ہے ، یہ ملک کا 70 فیصد معاشی بوجھ اٹھائے ہوئے ہے ۔ ایسے میں تو کراچی میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی پہلی ترجیح ہونی چاہیے ۔ اس برعکس پورے سندھ میں تو لاک ڈاؤن نام کا ہے مگر کراچی میں ہی اس پر انتہائی سختی سے عملدرآمد جاری ہے ۔ کورونا کے جتنے کیس اب تک سندھ میں دریافت نہیں ہوئے ہیں ، اس کے چار گنا افراد تو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیے جاچکے ہیں جبکہ اس کے دسیوں گنا کو پولیس نے چھوڑنے کے عوض بھاری رشوت وصول کی ہوگی ۔ اسپین ، اٹلی اور ایران جیسے ممالک تک نے کورونا میں نرمی کردی ہے اور اب معاشی سرگرمیوں کی بحالی کی طرف چل پڑے ہیں ، پاکستان میں تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے جو صورتحال ان ممالک میں تھی ۔ اس کے علاوہ اسے سندھ حکومت کی نااہلی ہی کہا جائے گا کہ شہریوں کی جان بچانے کے نام پر ہی انہیں موت کے منہ میں دھکیلا جارہا ہے ۔ کراچی کے تمام بڑے اسپتال کورونا کے مریضوں کے لیے مخصوص کردیے گئے ہیں جس کی بناء پر ان اسپتالوں میں دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کا علاج کرنے کے بجائے انکار کیا جارہا ہے ۔اس وجہ سے لوگ اسپتال جانے سے بھی گھبرا رہے ہیں۔ سید مراد علی شاہ بتائیں کہ کورونا سے کتنا نقصان ہوا ہے اور اس کے لیے تمام اسپتالوں کو مخصوص کرنے کا کیا نقصان ہوا ہے ۔ کراچی میں لاک ڈاؤن کے لیے سیدمراد علی شاہ اتنے زیادہ جذباتی ہیں کہ وہ اس کے لیے لایعنی اعداد و شمار بھی پیش کررہے ہیں ۔ بدھ کو انہوں نے کہا ہے کہ سندھ میں کورونا کے پانچ ہزار مریضوں کو آئسولیشن میں رکھا گیا ہے ۔ سید مراد علی شاہ کے اپنے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں اب تک 1668 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے ۔ اس میں سے 41 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ 560 افراد صحتیاب ہوکر گھروں کو جاچکے ہیں ۔ تقریباً ڈھائی سو افراد مختلف اسپتالوںمیں یا تو زیر علاج ہیں یا پھر انہیں آئسولیشن میں رکھا گیا ہے ۔ اس طرح سے تقریبا 800 مریض ہیں جنہیں ان کے گھروں پر آئسولیشن میں رکھا گیا ہے ۔ اب پتا نہیں یہ پانچ ہزار مریض کون سے ہیں جنہیں سید مراد علی شاہ نے آئسولیشن میں رکھا ہوا اور کہاں پر رکھا گیا ہے ۔ اس صورتحال کو جاننے کے باوجود کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں فائدے سے زیادہ نقصان ہورہا ہے ، وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ جس طرح سے لاک ڈاؤن میں نہ صرف اضافے بلکہ اس میں نامناسب سختی کے لیے بضد ہیں،ا س سے اشتباہ پیدا ہوتا ہے کہ معاملہ محض کورونا سے بچاؤ کا نہیں ہے بلکہ کچھ اور ہے ۔ کراچی میں کیماڑی کے علاقے میں پراسرار زہریلی گیس کے پھیلنے سے دودن میں 28 شہری جان سے گئے تھے مگر حکومت سندھ اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکی تھی ۔ صرف کراچی میں کتوں کے کاٹنے کے سو سے زاید کیس یومیہ رپورٹ ہوتے رہے ہیں مگر مراد علی شاہ اس سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ کی سرزنش کے باوجود متحرک نہیں ہوئے ۔ اسی طرح ان پر پھبتی کسی گئی کہ کراچی کو کچرے تلے دبا دیا گیا ہے اور سیوریج کے پانی میں ڈبو دیا گیا ہے ، سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سندھ حکومت کے زیر انتظام ہونے کے باوجود مراد علی شاہ ٹس سے مس نہیں ہوئے ۔ گزشتہ سیزن میں سیکڑوں افراد ڈینگی کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے مگر مراد علی شاہ نے اس کے لیے کوئی کام نہیں کیا ، اب وہ ضرورت سے اتنے زیادہ متحرک ہیں کہ لوگ موت کا شکار بھی ہورہے ہیں ، ان کے امراض بھی پیچیدہ صورت اختیار کررہے ہیں ، بھوک نے گھر گھر ڈیرے ڈال دیے ہیں ، یومیہ ہزاروں افراد خط غربت کو پار کررہے ہیں ، جو لوگ امداد دیا کرتے تھے وہ مراد علی شاہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے امداد کے منتظر ہیں مگر مراد علی شاہ ہیں کہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ اپنی حکومت کی پالیسیوں کو کسی صورت میں درست نہیں کریں گے ۔ اگر وفاقی حکومت اس ضمن میںکوئی ریلیف دے گی تو بھی نہیں مانیں گے اوراپنے ہی شہریوں کو بھوک اور دیگر بیماریوں سے مرنے کے لیے لاک ڈاؤن کو مزید سخت کردیں گے ۔ یہ صورتحال افسوسناک ہی نہیں بلکہ انتہائی سنگین ہے ۔ اس پر سماجی اور سیاسی رہنماؤں کو سوچنا چاہیے ۔