اقتصادی طوفان اور مواخاتِ مدینہ

355

ورلڈ بینک کی اس رپورٹ نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے کہ کورونا جنوبی ایشیائی ملکوں کے لیے گزشتہ چالیس سال کا سب سے بدترین اقتصادی طوفان ثابت ہو سکتا ہے۔ غربت کم کرنے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہیں اور اس بحران اور طوفان سے عالمی کساد بازاری، ڈالر کی مہنگائی، قرضوں کے حجم کی بڑھوتری، قرضوں کی واپسی میں مشکلات جیسے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ ان ملکوں میں پاکستان، بھارت، افغانستان، نیپال، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا اور بنگلا دیش شامل ہیں۔ سیاحت کا شعبہ زوال کا شکار ہے صنعتیں بند ہیں اور اگلے مالی سال میں شرح نمو میں نمایاں کمی ہوگی۔ پاکستان کا جی ڈی پی 1952کے بعد پہلی بار منفی میں چلا جائے گا۔ اس دوران وزیر اعظم عمران خان نے عالمی اقتصادی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ ترقی پزیر ملکوں کو قرضوں پر رعایت دیں۔ ترقی پزیر ملکوں میں وسائل کی کمی ہے اور عوام کو کورونا کے ساتھ ساتھ بھوک سے بھی بچانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک بھاری وسائل خرچ کرکے کورونا کا مقابلہ کررہے ہیں جبکہ ترقی پزیر ممالک کے پاس وسائل کی کمی اس جنگ میں آڑے آرہی ہے۔
عالمی بینک نے کورونا کو طوفان کہہ کر دنیا کو ڈرانے کی کوشش نہیں کی بلکہ یہ بحران واقعی دنیا کی معیشت کے لیے خطرے کا الارم بن گیا ہے۔ ترقی یافتہ اور باوسیلہ ملک ابھی پہلے مرحلے پر اس جنگ کو لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں وقتی طور پر وہ چین کی طرح کورونا کے پھیلائو کے براہ راست اور فوری خطرے سے نکل بھی سکتے ہیں مگر اس کے دیرپا اثرات وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔ کم یا زیادہ دنیا کی ہر معیشت کو کورونا نے زمین پر گرادیا ہے۔ اب جس معیشت میں تھوڑی بہت سکت ہوگی دوبارہ کھڑی ہوگی اور جو معیشت اس حالت میں نہیں ہو گی اسے سنبھلنے کے مدتیں درکار ہوں گی۔ خود پاکستان کے لیے کہا گیا ہے کہ اس کی معیشت کو سنبھلنے میں دو سال کا عرصہ لگے گا۔ یوں بھی کورونا کا زور ابھی مغربی اور یورپی ملکوں کی طرف ہے اور اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ اب یہ لہر جنوبی ایشیائی ملکوں کا رخ کرے گی کیونکہ ابھی پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی میں کورونا کے کیسز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ ابھی کورونا بحران کا عروج آنا باقی ہے۔ اس وباء کے عروج میں نقصان کا گراف سامنے آنے کے بعد معیشت کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان اور اس کے اثرات کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔ عمران خان دنیا کو آنے والے دنوں کی تصویر دکھا کر سنگینی کا احساس دلا رہے ہیں۔
پاکستان کی معیشت عرصہ دراز سے وینٹی لیٹر پر چلی گئی ہے۔ یہاں کاروبار حیات اور حکومت آئی ایم ایف کے قرض کی قسط پر چلنا اب معمول ہو گیا ہے۔ بحث صرف یہ ہوتی رہی ہے کہ کس حکومت نے بہتر شرائط پر قرض لیا اور کون کمزور شرائط پر قرض لینے پر مجبور ہوا۔ جو لوگ موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسی پر تنقید کر تے ہیں ان کی افلاطونیت کی حد بھی یہیں ختم ہوتی ہے کہ انہوں نے اچھی شرائط پر قرض لیے۔ قرض سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی اس ملک میں نہ ضرورت محسوس کی گئی اور نہ ہی اس کی اہمیت کو سمجھا گیا۔ دن گزارنے کی ایڈہاک ازم پالیسی نے پاکستان کو کوڑی کوڑی کا محتاج کر دیا۔ رہی سہی کسر دہشت گردی کے واقعات نے پوری کر دی تھی۔ ان حالات میں بہتری کی امید قائم تھی کہ اب کورونا بحران نے معیشت کو گھن کی طرح چاٹنا شروع کر دیا ہے۔ یہ حالات ہمارے لیے انتہائی کٹھن اور صبر آزما ہیں۔ اس صورت حال میں سب سے زیادہ دبائو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں پر آئے گا۔ حکومت ان لوگوں کو سنبھالنے کی استطاعت سے محروم ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں مواخات ِ مدینہ کے جذبے کی ضرورت ہے۔ اپنے پاس پڑوس کے معاشی حالات کی خبر رکھ کر کیمروں اور نمود ونمائش کے رویوں سے بے نیاز ہو کر مدد کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔ درگاہیں، عبادت گاہیں، تفریح گاہیں بند ہو چکی ہیں۔ عوام اپنا پیسہ مختلف جذبات سے مغلوب ہو کر خیر وفلاح اور تفریح کی خاطر بھی استعمال کرتے تھے۔ اب اگر اس کی کوئی سبیل باقی نہیں رہی تو اہل خیر اس رقم کو غریبوں اور مستحقین کی فلاح کے لیے خرچ کرنے کو معمول بنا سکتے ہیں۔ اگر ہر مخیر شخص اس بات کا عزم کرلے کہ کورونا کی نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات میں بھوک سے کسی کو مرنے نہیں دینا تو شاید ورلڈ بینک کی پیش گوئیاں ہوا میں اُڑ جائیں۔ مخیر کا مطلب صنعت کار اور جاگیردار یا بہت اعلیٰ افسر ہونا ہی نہیں بلکہ مخیر کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس کے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد کچھ پس انداز رہے۔ اپنی ضرورت کے ساتھ ساتھ دوسروں کی ضرورت کا احساس ہم میں پیدا ہو تو اس کے کیا کہنے ہیں یہی مواخات مدینہ کی روح ہے اور یہی قلندرانہ صفت ہے۔ ایثار واخوت اسی جذبے کا نام ہیں۔ کورونا کے انوکھے بحران میں اس انوکھے رویے کا مظاہرہ کرکے ہم دنیا کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کر سکتے ہیں۔