جلیل الدین
ان سے ملیے نام ہے ان کا عبداللہ۔۔ اور کام ہیں ان کے بہت اعلیٰ۔۔ نومولود کے کان میں اذان دینے سے نماز جنازہ تک بے شمار کاموں کے باوجود ان کا ماہانہ وظیفہ محدود اور چہرے پر اطمینان لامحدود ہے۔ شاید اس لیے کہ ان کے دل میں ہزاروں خواہشیں نہیں ہیں اور نہ ہی کسی خواہش پر ان کا دم نکلتا ہے۔ عبداللہ صاحب نہ عالم فاضل ہیں اور نہ ہی عابد و زاہد ہونے کے دعویدار۔ لیکن پھر بھی اہل محلہ کی بڑی تعداد اپنے مسائل کی گتھی سلجھانے کے لیے ان کی جھونپڑی کا رْخ کرتی ہے۔ مال و زر ہو یا اعانت و امانت ہر معاملے میں ہر فرد کا اعتبار ہی ان کا بڑا اعزاز ہے۔ کسی بھی گھر میں کوئی اچھی چیز تیار ہو تو ہر خاتونِ خانہ کی پہلی ترجیح مولوی صاحب کی فیملی ہوتی ہے۔ اہل محلہ کا یہ احترام اور محبت ہی مولوی صاحب کا کل اثاثہ ہے۔
اِسی گلی کے نْکّڑ پر غلام محمد صاحب رہتے ہیں۔ آمدن ان کی بھی محدود ہے اور خدمات کا دائرہ صبح سے شام تک بلکہ رات تک پھیلا ہوا ہے۔ غلام محمد صاحب صبح محلہ کے سرکاری اسکول میں پڑھاتے ہیں۔ کمزور بچوں کوگھر پر بھی بلالیتے ہیں۔ ذہین بچوں کو آگے بڑھنے کے مشورے بھی دیتے ہیں۔ کسی کی درخواست لکھنا ہو یا گلی محلہ کا مسئلہ ہر معاملے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غلام محمد صاحب ہر دلعزیز ہیں۔ ہر فرد اپنی تقریب میں غلام محمد صاحب کی شرکت افتخار کا باعث سمجھتا ہے اور ماسٹر صاحب کے مشورے کو بھی حکم کا درجہ دیتا ہے۔
ان ہی گلیوں میں آپ کی ملاقات گلے میں زرد رنگ کا تھیلا لٹکائے خاکی یونیفارم میں ملبوس ڈاک بابو سے بھی ہوگی۔ ان کے تھیلے میں اچھی بری خبر ہی نہیں بیرون شہر سے بھیجے ہوئے منی آرڈر بھی ہوتے ہیں۔ ڈاک بابو ہر گھر پر دستک دیتے ہیں۔ خط، لفافہ ایروگرام تھماتے ہیں۔ کوئی فرمائش کرے تو پڑھ کر بھی سنادیتے ہیں اور کسی کی خواہش پر جواب بھی لکھ دیتے ہیں۔ گویا ڈاک بابو نہ ہوا محلہ والوں کا رازداں بھی ہوا۔ کس کے بیٹے نے کتنے پیسے بھیجے؟ کس کے سرتاج نے کتنی تنخواہ خاتون خانہ کو ارسال کی؟ سب کچھ ڈاک بابو کے سینے کا دفینہ ہے۔ مجال ہے کسی گھر کے راز کی بھِنَک کسی غیر متعلقہ شخص کو پڑ جائے؟ اس کے بدلے میں ڈاک بابو کسی گھر سے ٹھنڈا پانی پی لیتے ہیں اور بس۔۔۔ منی آرڈ وصول کرنے والے کے در سے کچھ نقد مل جائے تو خوشی سے نہال ہوجاتے ہیں۔ ہاں عید الفطر پر یہ حضرت تمام کارڈز سنبھال کر رکھتے ہیں۔ عید کی نماز کے بعد کارڈ پہنچاتے اور گلے مل کر مبارکباد دیتے ہیں۔ اس دوران کارڈ وصول کرنے والا ہر شخص چھوٹوں کی طرح اسے بھی عیدی دے کر مسرور ہوتا ہے۔
اسی محلے میں رہنے والی ایک اور ہستی سب کے دلوں میں بھی رہتی ہے۔ ان کے دادا دادی نے تو ان کا نام اللہ دیا رکھا تھا لیکن ہرزبان پر ان کا نام کامریڈ ہے۔ سماجی کام ان کی شناخت ہے۔ صفائی ستھرائی کا مسئلہ ہو یا آوارہ کتوں کی بھرمار۔ راشن کارڈ کی پریشانی ہو یا تھانہ کچہری کی الجھن۔۔ کامریڈ صاحب سب سے آگے ہیں۔ ان ہی کاموں کی بنا پر کامریڈ صاحب علاقے کا امرت دھارا سمجھے جاتے ہیں۔ خلق کی خدمت ہی ان کی سب سے بڑی عبادت اور سرمایہ ہے۔
گلی محلے سے نکل کر سیاسی و انتظامی اُفق پر نظر ڈالتے ہیں تو ہماری نظر لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان پر پڑتی ہے۔ جنرل صاحب 1953 میں جی او سی کی حیثیت سے لاہور میں پاکستان کے پہلے محدود مارشل لا کے ایڈمنسٹریٹر بنے۔ ایوب خان کی کابینہ میں مہاجرین کی بحالی اور آباد کاری کے وزیر رہے۔ لانڈھی کورنگی کی برق رفتار تعمیرات ان ہی کی محنت کا ثمر ہے۔ بعد میں سابق مشرقی پاکستان کے گورنر بنائے گئے۔ بنگالیوں کے فوج اور مغربی پاکستان والوں کے بارے میں تاثرات کبھی ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ لیکن جنرل اعظم نے ایسی نیک نامی کمائی کہ ایوب خان بھی ان کی مقبولیت سے خوف زدہ ہوگئے۔ جب ایوب خان نے جنرل اعظم کو گورنری سے ہٹایا تو بنگالی اداس ہوگئے۔ کہتے ہیں بعض لوگ بلک بلک کر روئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان ساحل کی ریت کی طرح ہاتھ سے نکل رہا تو یحییٰ خان کو جنرل اعظم کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنانے کی تجویز دی تھی۔
ایوب خان کا ذکر آیا ہے تو ان کے خلاف عوامی تحریک کے بعض مناظر بھی ذہن کے پردے پر آتے ہیں۔ اس دوران وکلا بار سے نکلے تو دفعہ ایک سو چوالیس کے تحت چار افراد سے زائد کے اجتماع پر پابندی کا خیال رکھا۔ دو، دو کرکے بینر اٹھا کر سڑکوں پر مارچ کیا۔ پلے کارڈز پر تحریر جملوں نے ہی دل کی بات بیان کی۔ تعلیمی اداروں کی صورتحال بھی مثالی رہی۔ طلبہ احتجاج کے لیے کمرہ جماعت سے نکلتے۔ نعرے لگاتے۔ لیکن کسی بڑے سے بڑے پولیس افسر کو کالج اور یونیورسٹی میں داخل ہونے کا حوصلہ نہ تھا۔
ایوب خان کے بعد یحییٰ خان آئے اور سقوط ڈھاکا کے بعد رخصت ہوئے۔ بھٹو صاحب اقتدار میں آئے۔ ایک دن ٹھٹھہ کے دورے پر پہنچے۔ عوامی کچہری میں مسائل سن رہے تھے کہ ایک بوڑھے نے اس آغا شاہی کو ڈپٹی کمشنر بنانے فرمائش کردی۔ سب لوگ حیران کہ بھارت کے شہر بنگلور میں آنکھ کھولنے والا انڈین سول سروس کا بیوروکریٹ سندھ کے شہر ٹھٹھہ میں کیوں مقبول؟ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا اْن کے دور میں ٹھٹھہ میں بھونگ کے لیے جانوروں کی چوری بند ہوگئی تھی۔
پاکستان سے نکل کر برصغیر کے سابق حکمراں کے دیس چلتے ہیں۔ وہاں تقریباً بیس سال پہلے ایک سروے ہوا۔ سروے کا مقصد عوام کی نگاہ میں سب سے محترم افراد کا تعین کرنا تھا۔ اس سروے میں طبی و نیم طبی عملہ سب سے اوپر تھا اور فٹ بالر سب سے نیچے۔۔ وجہ پوچھی تو جواب تھا ڈاکٹر اور نرسیں کم آمدن میں زیادہ کام کرتے ہیں اور انسانی جانیں بچاتے ہیں جب کہ فٹبالر بہت کماتے ہیں اور ان کا رویہ جارحانہ ہوتا ہے۔