اسامہ الطاف
ظاہر ہے کہ وبا کے اس دور میں ہماری حالت بھی باقی لوگوں سے مختلف نہیں، تمام مشاغل بجز بنیادی انسانی ضرورتوں کے معطل ہوگئے ہیں، لہٰذا اس زمانہ فراغت میں ایک کام جو انتہائی سہل مگر پیچیدہ ہے وہ ہم بکثرت کررہے ہیں، میرا اشارہ سوچ و بچار کے عمل کی جانب ہے، خیال گزرا کہ اس مبارک عمل میں کیوں نہ دوستوں کو بھی شریک کیا جائے۔
تو دوستوں میں سوچ رہا تھا اور آپ بھی میرے ساتھ سوچیے کہ ہم اب تک دنیا بھر کی خبریں سنتے تھے مگران کا اثر نہیں لیتے تھے، ایک لمحے کے لیے آج سے تین، چار ماہ قبل کی اپنی زندگی یاد کریں، مشاغل زندگی میں مصروف ہم دنیا وما فیہا سے باخبر لیکن بے فکر تھے، ہم سنتے تھے کہ کشمیر میں کرفیو کو اتنے اتنے دن ہوگئے ہیں اور وہاں جھڑپوں میں اتنے نوجوان شہید ہوگئے ہیں، ہم یہ سب سنتے تھے، افسوس سے سرہلاتے تھے اور پھر آگے بڑھ جاتے تھے۔ ہم سنتے تھے کہ روسی طیاروں کی بمباری سے شامی شہر تاراج ہوگئے، ہم نہ صرف سنتے تھے بلکہ دیکھتے بھی تھے کہ وہاں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے زخمیوں اور لاشوں کو نکالا جارہا ہے، ہم سنتے تھے، ملامت کے چند الفاظ ادا کرتے تھے اور آگے بڑھ جاتے تھے۔ چین کے ایغور مسلمانوں کے قصے ہمارے کانوں تک پہنچتے تھے، ہم سنتے تھے کہ کس طرح وہاں کیمپوں میں باقاعدہ اسلامی شناخت ختم کی جارہی ہے، ایک اقلیت کے خلاف پوری ریاستی طاقت استعمال ہورہی ہے، ہم سنتے تھے، سرد آہ بھرتے تھے اور آگے بڑھ جاتے تھے۔ ہم انتہائی مصروف تھے، ان اضافی فکروں کو پالنے کا ہمارے پاس وقت نہیں تھا کیونکہ ہم اپنی دنیا سنوار رہے تھے، اچانک یہ افتاد آن پڑی اور ہماری خوبصورت دنیا یکایک تاریک ہوگئی، کل تک ہم جو خبریں سنتے تھے آج ہم خود خبروں کا موضوع بن گئے، شکر ہے خدا کا اب بھی ہمارے اوپر وہ خوف مسلط نہیں جس کا شکار کشمیری، شامی یا ایغور باشندے ہیں مگر میں سوچ رہا تھا کہ یہ افتاد ہمارے لیے زفیل بیداری (wakeup call) ہے۔ ہم اپنی دنیا کو ضرور سنواریں مگر مظلوموں کو کم از کم اپنی دعاؤوں میں نہ بھولیں اور ایسی باتوں اور سرگرمیوں سے احتراز کریں جس سے ان پر ظلم کو کرنے والوں کو تقویت ملتی ہو۔
میں سوچ رہا تھا۔۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا عجب آفت ہے یہ وائرس، اس نے موجودہ عالمی اصولوں کا خیال کیا نہ جدید دنیا کے طبقاتی فرق کا لحاظ، ہمارے ممالک جو ترقی یافتہ اور ترقی پزیر، صنعتی اور زرعی، پیداوار کرنے والے اور صرف کرنے والے، شمالی قطب ا ور جنوبی قطب میں منقسم تھے، اس وائرس نے اس تقسیم کا کچھ خیال ہی نہیں کیا اس نے چینیوں کو نہیں بخشا جو اپنے معاشی نمونے کی بنیاد پر پوری دنیا پر اجارہ داری کے خواب دیکھ رہے تھے، ایرانی جن کو اپنی فارسی شناخت پر اتنا فخر تھا کہ وہ مسلم اور غیر مسلم ممالک کی تقسیم سے صرف نظر کرکے اپنے ایک علیحدہ بین الاقوامی ایجنڈے پر گامزن تھے وہ بھی اس وائرس کے سامنے چاروں شانے چت ہوگئے، اس نے یورپی دنیا کو بھی دن میں تارے دکھا دیے جو زمین کو
مسخر کرنے کے بعد دوسرے سیاروں کو فتح کرنے کا سوچ رہے تھے، اس وائرس نے ان کے روشن خیالوں کو ان کی مادی اور علمی ترقی کے، اور ان کے تنگ نظروں کو ان کی گوری رنگت کے گھمنڈ کو خاک میں ملادیا، اور تو اور اس نظر نہ آنے والے وائرس کے سامنے تو وہ سپر پاور بھی ڈھیر ہوگیا جو اپنے ایک شہری کی ہلاکت کا بدلہ بستیوں اور ملکوں کو تباہ کرکے لیتا تھا، آج اسی امریکا میں اجتماعی قبریں تیار ہورہی ہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ اب جبکہ چار سوں سناٹا ہے، قدرت انسانی وجود سے آزادی کا جشن منارہی ہے، پرندوں کی چہچہاہٹ واپس آگئی ہے اور آسمان بالکل صاف شفاف ہوگیا ہے، سورج کی کرنوں کی اب واقعی چمک محسوس ہوتی ہے اور زمین گویا روشن ہوگئی ہے، میں سوچ رہا تھا کہ انسان کو بھی روشنیوں کے اس جشن میں شامل ہونا چاہیے، ہمارے ذہن بھی تعصبات اور نفرتوں سے آلودہ ہیں، ہماری سوچ کئی سماجی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے، ہمارے افکار طاقتور اور غالب تہذیب کے سحر میں گرفتار ہیں، میں سوچ رہا تھا کہ آج جب تمام مخلوقات جشن آزادی منارہی ہیں تو کیوں نہ ہم بھی اپنے دماغ، سوچ اور افکار کو تمام قیود سے آزاد کرکے اس جشن میں شامل ہوجائیں۔