لاک ڈائون میں کچھ رعایت کیجیے

374

آج 15 اپریل بروز بدھ جب یہ تحریر لکھی جارہی ہے پورے ملک میں لاک ڈائون وفاقی حکومت کی طرف سے دو ہفتوں کے لیے بڑھا دیا گیا۔ صوبہ سندھ میں تو یہ لاک ڈائون تین ہفتوں سے چل رہا ہے سندھ کے لوگوں کو یہ امید تھی کہ یہ لاک ڈائون اب ختم ہو جائے گا یا اس میں کچھ نرمی اور رعایت کا اعلان ہوگا لیکن ایسا نہیں ہو سکا جس سے لوگوں کو مایوسی ہوئی ہے اسی لیے اسمال بزنس یعنی چھوٹے تاجروں نے یہ اعلان کیا کہ وہ بدھ پندرہ اپریل سے اپنی دکانیں کھول لیں گے چاہے ہمیں گرفتاری کیوں نہ دینا پڑے لیکن مقامی انتظامیہ نے کاروباری انجمنوں کے ذمے داران سے رابطہ کر کے دو روز کی مہلت مانگی ہے امید ہے کہ 17اپریل سے کچھ شرائط کے ساتھ دکانیں کھولنے کی اجازت مل جائے گی۔ بہت سے درمیانے طبقے کے لوگ ایسے ہیں جن کے کچھ مکانات کرائے پر ہیں اور اسی کرائے سے ان کے گھر کا خرچ چلتا ہے۔ حکومت نے کرائے داروں کے بارے میں یہ فیصلہ کرکے کہ وہ اس ماہ کا کرایہ نہ دیں ایک نیا جھگڑا کھڑا کردیا ہے اب وہ کرائے دار حضرات جو آسانی سے کرائے دے سکتے ہیں وہ بھی مالکان کو ذہنی طور سے پریشان کررہے ہیں۔
کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں کی تعداد بھی پہلے سے کچھ کم ہوئی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارے وزیراعلیٰ سندھ کچھ نادیدہ اندیشوں کا شکار ہیں کہ اگر انہوں نے لاک ڈائون ختم کیا اور اچانک کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں کی تعداد بڑھ گئی تو وہ کیا کریں گے! حالانکہ دیگر بڑے اسپتالوں کے علاوہ ایکسپو سینٹر میں بارہ سو افراد کے علاج کا انتظام کیا گیا وہاں اس وقت بیس لوگ بھی مشکل سے ہوں گے۔ کئی یورپی ممالک بھی اپنے یہاں لاک ڈائون کو جزوی یا کلی طور پر ختم کررہے ہیں۔ امریکا میں بھی چھوٹے دکانداروں کو دکان کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ہمار ے صوبے سندھ میں وزیر اعلیٰ نے سب سے پہلے 22اور 23مارچ کی درمیانی رات سے لاک ڈائون کا سلسلہ شروع کیا اب تک تین ہفتے ہو چکے ہیں اب تک کئی دکانیں تو مستقل بند ہیں بیکری، پرچون، دودھ وغیرہ کی دکانیں شام پانچ بجے تک کھل رہی ہیں کچھ سبزی وغیرہ بھی مل جاتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم کسی چیز کو وقت کے ساتھ پابند کردیتے ہیں جس مقصد کے لیے کے لیے یہ سب کچھ ہورہا ہے وہ مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے کہ لوگوں کو بھیڑ سے بچایا جائے لیکن دوپہر تین سے پانچ کے درمیان بازار میں اتنا رش ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے بعض اوقات بدن بھی ٹچ ہو جاتا ہے۔ اگر ہم نارمل انداز میں دکانیں کھولنے کی اجازت دے دیں تو گلیوں اور سڑکوں اتنا رش نہ ہو جتنا کہ آج کل نظر آتا ہے۔
میرا خیال ہے کچھ شرائط کے ساتھ لوگوں کو دکانیں کھولنے کی اجازت دے دی جائے ایک تو یہ کہ ہر دکان میں سنیٹائزر ہو آنے والے کو پہلے اسے لگایا جائے اسی طرح دکان میں رش نہ ہونے دیں ایک ایک فرد کو ڈیل کریں اور ان کو فاصلے سے کھڑا رکھیں۔ اگر دکانیں مارکیٹ میں ہوں تو مارکیٹ ایسوسی ایشنزکے ذمے داران اس چیز کا اہتمام کریں کے مارکیٹ کے اندر زیادہ رش نہ ہونے پائے اسی طرح تمام دکانداران اپنے پاس بڑی تعداد میں ماسک رکھیں کہ جو گاہک بغیر ماسک کے ہو اسے پہلے ماسک دیا جائے پھر سنیٹائزر لگایا جائے دکاندار اور گاہک کا فاصلہ تین سے چھ فٹ کا ہونا چاہیے اسی طرح گاہکوں کے درمیان بھی تین سے چھ فٹ کے فاصلوں کو برقرار رکھا جائے دکاندار گاہک سے یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ خریداری کا مرحلہ جلد مکمل کرلیں تاکہ اگلے گاہک کو موقع مل سکے۔ دوسری طرف ملک کے جید علماء کی پریس کانفرنس ہوئی جس میں انہوں نے مساجد سے لاک ڈائون ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے مفتی تقی عثمانی نے شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں کہا ہے انہوں نے تمام مکتبہ فکر کے علماء کے اجلاس میں جو فیصلے کیے ہیں وہ دراصل حکومت سے ایک طرح سے یہ مطالبہ ہے کہ مساجد سے لاک ڈائون ختم کیا جائے اور یہ کہ ہر مسجد میں پنج وقتہ نماز کے ساتھ نماز جمعہ اور تراویح بھی پڑھی جائیں گی۔ ان علماء نے خود کچھ اہم شرائط کا اعلان کیا ہے کہ مساجد سے قالین اور دریاں ہٹا دی جائیں۔ مسجد کمیٹی کے لوگ مسجد کے گیٹ پر سنیٹائزر لے کر کھڑے ہوں، ہر نمازی کے ماسک چیک کریں، بوڑھے بیمار اور تیماردار حضرات کو گھر پر ہی نماز پڑھنے کے لیے کہا گیا ہے، اندر صفوں کے درمیان اس طرح فاصلہ ہو کہ ایک صف بندی کے بعد والی صف کو خالی چھوڑ کر تیسری صف بنائی جائے جو لوگ صف میں ان کے درمیان بھی تھوڑا فاصلہ رکھا جائے مسجد کے وضوخانے بند کردیے جائیں لوگ گھروں سے وضو کرکے آئیں سنتیں لوگ گھر سے پڑھ کے آئیں اور فرض کے بعد والی سنتیں بھی گھر جاکر پڑھیں جمعہ کے دن اردو کی تقاریر نہ کی جائیں اور عربی میں خطبہ بھی مختصر پڑھا جائے، جماعت میں قرأت بھی مختصر ہو اور نماز کے بعد دعا بھی لمبی نہ مانگی جائیں۔ میرا خیال ہے کہ ہماری صوبائی حکومت رمضان کی رحمتوں برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے علماء حضرات کو اعتماد میں لے کر کوئی مناسب فیصلے کرے گی اور ماہ رمضان میں مساجد میں پنج وقتہ نماز، نماز تراویح نماز جمعہ اور اعتکاف کے اہتمام میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔