اسلامی اخوت اور شیطانی تدابیر

279

مولانا محمد اعجاز

قرآن کریم نے ان اسباب و ذرائع کی بھی نشان دہی کی ہے جن کے ذریعے سے شیطان مسلمانوں کو آپس میں لڑاتا ہے اور جو ان کے انتشار و افتراق کے لیے زمین ہموار کرتے ہیں، ان میں سب سے پہلی چیز اسلامی اخوت کے رشتے کا کمزور پڑ جانا اور مسلمانوں کا خدا اور رسول کی اطاعت سے روگردانی کرنا ہے۔ جب اسلام کی عظمت و تقدس کا لحاظ نہ رہے تو ظاہر ہے کہ اسلامی اخوت و اسلامی اتحاد کا احترام بھی اٹھ جاتا ہے، اس صورت میں مسلمان آپس میں دست و گریبان ہونے میں قباحت محسوس نہیں کریں گے۔
دوسری چیز جو اسلامی اخوت کی روح کو کچل دیتی ہے وہ ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان سے بدگمانی ہے، اسی لیے قرآن کریم نے بدگمانی سے احتراز کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور مسلمانوں کو بتایا ہے کہ جس بدگمانی کا صحیح منشا موجود نہ ہو وہ گناہ ہے، حدیث پاک میں آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’بدگمانی سے احتراز کیا کرو، کیوں کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے‘‘۔
تیسری بات جو بدگمانی سے جنم لیتی ہے وہ غیبت اور بہتان ہے، جب ایک شخص کو دوسرے شخص سے سوئے ظن ہوجاتا ہے تو اظہارِ نفرت کے لیے اس کی بْرائیوں کی داستان بڑے مزے لے کر بیان کرتا ہے، ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کی پس پشت بْرائی کرنا غیبت کہلاتا ہے اور یہ قرآن کریم کی نظر میں مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ غیبت ایسا خبیث گناہ ہے کہ بڑے بڑے پرہیز گار لوگ اس میں نہ صرف مبتلا ہوجاتے ہیں، بلکہ اس کو اچھی چیز سمجھنے لگتے ہیں، کیوں کہ دوسرے کی برائیاں بیان کرنے میں نفس کو لذت ملتی ہے اور وہ ایسے زہر کو میٹھی گولی سمجھ کر شوق سے کھاتا ہے اسی بنا پر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ’’غیبت زنا سے بھی سنگین جرم ہے‘‘۔ عرض کیا گیا یارسو ل اللہ! یہ زنا سے سنگین جرم کیوں ہے؟ فرمایا: ’’بدکار بدکاری کرتا ہے تو اسے سمجھ کر کرتا ہے اور کرنے کے بعد اس پر پشیمان ہوتا ہے، اس سے توبہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہے، مگر غیبت کرنے والے کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کوئی گناہ کر رہا ہے۔ اس لیے اس کو کبیرہ گناہ سے توبہ کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی‘‘۔
چوتھی چیز غلط خبروں کی اشاعت ہے، جب آدمی کو کسی سے نفرت ہوجائے تو بسا اوقات وہ صرف غیبت ہی پر اکتفا نہیں کرتا ہے، بلکہ افسانہ طرازی بھی شروع کر دیتا ہے اور محض اپنے قیاس اور اندازے کو تخیلات میں ڈھال کر واقعہ بنا لیتا ہے۔ اور کبھی اصل بات کچھ اور ہوتی ہے، مگر اس میں رنگ آمیزی اور حاشیہ آرائی کر کے اسے کچھ کا کچھ بنا لیا جاتا ہے۔ یہ حرکت بہت سے کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہے۔ جھوٹ،بہتان، غیبت، کسی مسلمان کی دل آزاری و رسوائی جیسے سب گناہ اس میں سمٹ آتے ہیں، اس لیے قرآن کریم نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی ہے کہ جب انہیں کسی مسلمان کے بارے میں کوئی خبر ملے تو اس پر بغیر تحقیق کے نہ یقین کیا کریں اور نہ اس پر اپنے کسی ردِ عمل کا اظہار کریں۔ قرآن کریم ایسی خبریں اڑانے والوں کو’’فاسق‘‘ کہہ کر انہیں ناقابل اعتبار قرار دیتا ہے۔
پھر جب ایسی خبریں عام طور پر ایک دوسرے کے خلاف شائع ہونے لگتی ہیں تو طرفین میں عداوت کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنی جو قوت کفر کے مقابلے میں خرچ کرنی چاہیے تھی وہ آپس کی ناچاقی میں صرف ہونے لگتی ہے، ہر فریق دوسرے فریق کو نیچا دکھانے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں خرچ کر دیتا ہے، اس طرح مسلمانوں کی قوت، ان کا وقت، ان کا مال، ان کی دماغی و جسمانی صلاحیتیں آپس کی سر پھٹول کی نذر ہونے لگتی ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور انہیں مسلمانوں سے مقابلے و مقاومت کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہ جاتا۔ یہ ہے وہ سب سے بڑا عذاب جس سے اسلامی معاشرہ دو چار ہے۔
شیطان نے مسلمانوں کو لڑانے کے لیے جو بے شمار ذرائع ایجاد کیے ہیں ان میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی قباحت کی طرف کسی کی نظر ہی نہیں جاتی، وہ اس کے لیے کبھی مذہبی میدان ہموار کرتا ہے اور چند سر پھروں کو نئے نئے شوشے چھوڑنے پر اکساتا ہے، کبھی اس کے لیے سیاسی میدان تیار کرتا ہے اور مسلمانوں کو مختلف ٹکڑیوں میں بانٹ کر سیاسی دنگل میں اتار دیتا ہے۔ کبھی قوم و وطن اور قبیلہ و برادری کا بْت تراش کر چند سامریوں کو اس کا سرپرست بنادیتا ہے اور وہ اسلامی اخوت کے تمام رشتے کاٹ پھینکتے ہیں، کبھی طبقاتی کشمکش برپا کر کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خون سے عداوت ودشمنی کی پیاس بجھانے کی تدبیر سجھاتا ہے اور یہ ساری چیزیں اسلامی معاشرے کو جہنم کا نمونہ بنادیتی ہیں۔
بدقسمتی سے آج ہمارے گردو پیش میں یہی شیطانی الاؤ روشن ہیں اور مسلمان اس کا ایندھن بنتے جارہے ہیں۔ حق تعالیٰ شانہ اہلِ اسلام کو اسلامی اخوت کے رشتے میں منسلک رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام شیطانی تدابیر سے محفوظ رکھے۔