سندھ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں؟

523

دنیا بھر میں لاک ڈاؤن میں نرمی لائی جارہی ہے ، اس کے برخلاف سندھ میں روز لاک ڈاؤن میں مزید سختی کرنے کا فرمان جاری کیا جارہا ہے ۔ سندھ کا معاملہ پورے ملک سے بھی جدا ہے ۔ آزاد کشمیر کی حکومت نے ریاست میں باجماعت نمازوں اور جمعہ کی نماز کے اجتماع اور تراویح کی اجازت دے دی ہے جبکہ اسلام آباد میں ہفتہ وار بازار بھی لگانے کی اجازت دے دی گئی ہے ۔ گزشتہ ایک ہفتے کی خبروں کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سندھ میں حالات اتنے خراب نہیں ہیں کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کے بجائے اس میں سختی کردی جائے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سندھ میں اب تک کورونا کے نام پر جتنی اموات کا اعلان کیا گیا ہے ، ان کے بارے میں میڈیا پر مسلسل خبریں آرہی ہیں کہ ان کی اکثریت کورونا سے نہیں بلکہ دیگر امراض سے جاں بحق ہوئی ہے ۔ جمعرات کے جسارت میں ہی خبر ہے کہ ایس آئی یو ٹی میں کورونا کے نام پر جس شخص کی موت ڈکلیئر کی گئی وہ سرطان اور دل کے امراض میں مبتلا تھے ۔ تین دن قبل ان کے گھر والوں سے کہا گیا تھا کہ امید ختم ہوگئی ہے اس لیے الوداعی ملاقاتیں کرلیں مگر ایک روز قبل ہی بتایا گیا کہ انہیں کورونا کا مرض لاحق ہوگیا ہے ۔ 2 اپریل کو روزنامہ جنگ کی خبر میں بتایا گیا تھا کہ اس وقت تک کراچی میں کورونا کے نام پر مرنے والے سارے کے سارے افراد سرطان ، گردوں اور دل کے سنگین امراض میں پہلے سے مبتلا تھے ، اسی طرح ڈان نیوز کی ویب سائیٹ پر سات اپریل کو خبر دی گئی کہ حیدرآباد میں کورونا کے نام پر مرنے والے پہلے شخص کی مرنے کے بعد کورونا کی رپورٹ منفی آئی تھی ۔ جمعرات کو جیو نیوز کی ایک خبر میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ اب تک صرف ایک خاتون ایسی ملی ہیں جنہیں کورونا تھا ورنہ ایسے مرنے والے افراد کو بھی کورونا کا مریض سرٹیفکٹ جاری کر دیا گیا جن کی موت گلے میں چھالیہ پھنسنے سے ہوئی ۔ سماجی رہنما صارم برنی کا وڈیو کلپ موجود ہے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ ایک عام مرض سے انتقال کرنے والے افراد کے اہل خانہ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ تسلیم کرلیں کہ ان کے پیارے کی موت کورونا سے ہوئی تھی ۔ اس مقصد کے لیے معقول رقم کی پیشکش بھی کی جارہی ہے ۔ صارم برنی نے بتایا کہ ان کے علم میں ایسے دو خاندان ہیں ، جنہیں بھاری رقم کی پیشکش کی گئی ۔ ان میں سے ایک خاندان نے انکار کردیا جبکہ دوسرے نے یہ پیشکش قبول کرلی ۔ یہ اور ان جیسی کئی رپورٹیں موجود ہیں جو موقر روزناموں میں شائع ہوئی ہیں مگر ابھی تک سندھ حکومت یا کسی اور ادارے نے ان کی تردید نہیں کی ہے ۔ نہ ہی کسی ادارے نے ان خبروں کے مقابلے میں اپنے اعداد و شمار پیش کیے ہیں ۔ اصولی طور پر صوبے میں جتنے بھی مریض موجود ہیں ، ان کے درست اعداد و شمار میڈیا کو فراہم کیے جانے چاہییں ۔ جتنے مریضوں کا انتقال ہوا ہے ، ان کی پوری کیس ہسٹری بتائی جائے کہ انہیں کورونا کے علاوہ اور کون کون سی بیماریاں تھیں ۔ اسی طرح یہ بھی بتایا جائے کہ ایسی کون سی صورتحال ہے کہ جس کی وجہ سے سندھ میں خصوصا کراچی میں لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کراچی بلکہ پورا پاکستان ہی شدید متاثر ہے ۔ اب تک سندھ میں کورونا سے 52 دنوں میں مجموعی طور پر 45 ہلاکتیں ہوئی ہیں جس کا اوسط یومیہ ایک بھی نہیں بنتا ۔ اس کے لیے پورے صوبے کو بند کرنے کا جواز سمجھ میں نہیں آتا ۔ ہر مرتبہ سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ یہی کہتے ہیں کہ آئندہ دو ہفتے انتہائی اہم ہیں ۔ کورونا کے وائرس کا انکیوبیشن کا عرصہ دو ہفتہ بتایا گیا تھا ۔ لاک ڈاؤن کو چار ہفتے ہونے والے ہیں ، اب کیوں اور کس طرح سے کورونا پھیل رہا ہے ۔ پہلے کراچی کے ایکسپو سینٹر میں ایک ہزار بستروں کا کورونا کے لیے خصوصی مرکز بنایا گیا جس میں ابھی تک محض 52 مریض داخل ہیں ۔ پورے کراچی میں 208 مریض اسپتالوں میں داخل ہیں ۔ اب سندھ حکومت نے دس ہزار بستروں پر مشتمل کورونا کا خصوصی مرکز بنانے کا اعلان کردیا ہے ۔ اب جبکہ کورونا کے مریضوں کی تعداد کم ہورہی ہے تو دس ہزار بستروں کا اسپتال کس لیے بنایا جارہا ہے ۔ سندھ میں جس طرح سے کورونا کے نام پر فنڈز غائب ہوئے ہیں ، اس سے کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ میں کورونا کا مرض کیوں ختم نہیں ہونے دیا جارہا ۔ اب تو عدلیہ نے بھی پوچھ لیا ہے کہ سندھ حکومت جواب دے کہ کورونا کے متاثرین کے نام پر جو راشن بانٹا گیا ہے ، وہ کہاں گیا ۔کچھ ایسی ہی صورتحال اسپتالوں میں موجود سہولیات کے ساتھ ہے ۔ سندھ حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے ۔ سندھ کے شہروں کراچی ، حیدرآباد، نوابشاہ ، سکھر ، لاڑکانہ وغیرہ ہی کو دیکھ لیں کہ انہیں کھنڈر میں تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ سندھ میں گیسٹرو کی بیماری وبا کی صورت میں موجود ہے جس کی وجہ سے درجنوں افراد روز ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں مگر سندھ حکومت کی توجہ ایک مرتبہ بھی اپنے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کی طرف نہیں رہی ۔ اسی طرح سندھ کے تعلیمی ادارے حکمراں پارٹی سے تعلق رکھنے والے بااثر وڈیروں نے اوطاقوں میں تبدیل کیے ہوئے ہیں مگر سندھ حکومت کی توجہ اس طرف بھی نہیں رہی ، صحت و صفائی سندھ حکومت کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہے ۔ اب بھی سندھ حکومت کی توجہ صرف اور صرف کورونا کی طرف اس لیے ہے کہ اس مد میں لامحدود فنڈز موجود ہیں جن کا کوئی حساب کتاب بھی نہیں ہے ۔ بہتر ہوگا کہ سندھ میں لاک ڈاؤن کرنے والے سارے ہی کردار اس طرف توجہ دیں اور صوبے کے عوام کو بھکاری بنانے کے بجائے انہیں باعزت روزگار کمانے کا موقع دیں ۔