باہر خطرہ ٹہل رہا ہے

265

انڈیا کے معروف و ممتاز شاعر کمار پاشی کی جنم بھومی بستی حمائتیاں بہاول پور کی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھارت چلے گئے۔ کورونا وائرس کی وبا نے جو دہشت اور خوف ہراس کی فضا پیدا کی ہے اس کے پس منظر میں ہمیں کمار پاشی کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔ خدا جانے! پاشی جی! نے کن حالات میں یہ شعر کہا ہو گا۔ کچھ کہنے سے قبل شعر سنائے دیتے ہیں:
باہر خطرہ ٹہل رہا ہے
خود کو گھر کے اندر رکھ دے
ممکن ہے کمار پاشی نے یہ شعر قیام پاکستان کے بعد پاک بھارت میں جو حالات پیدا ہوئے تھے، اس کا کتھارسس کیا ہو۔ ان دنوں کورونا وائرس نے بھی وہی فضا پیدا کر دی ہے لو گوں نے اپنے گھروں کو سب جیل بنا لیا ہے۔ دستک دینے والوں کی انگلیاں لہو اُگلنے لگتی ہیں مگر اہل خانہ دروازہ نہیں کھولتے۔ بعض گھروں پر یہ تحریر دکھائی دیتی ہے۔ ’’ہم قرنطینہ میں ہیں براہ کرم دروازہ مت کھٹکھٹائیے بچوں نے کورونا! کورونا! کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ محلے کے بہت سے بچے گلی میں جمع ہوجاتے ہیں اور ایک بچہ داخلی گلی میں کھڑا ہوجاتا ہے اور جب مین روڈ پر پولیس کی گاڑی دکھتی ہے تو وہ کورونا! کورونا! چلاتا ہوا بھاگ جاتا اور تمام بچے گھروں میں چھپ جاتے ہیں جو بچہ پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اسے مرغا بنا دیتے ہیں کچھ بچے اتنے شرارتی ہوتے ہیں کہ مرغا بنتے ہی بانگیں دینے لگتے ہیں۔
آج کل تمام مکاتب فکر کی سوچ اس نکتے پر ٹھیر گئی ہے کہ کورونا کے بعد کیا ہوگا، وہی ہوگا جو ’’میڈیا ڈان‘‘ چاہے گا۔ تمام میڈیا چینل دنیا بھر کے ممالک میں کورونا وائرس کی غارت گری کا ذکر کررہے ہیں مگر اسرائیل میں کورونا وائرس کیا کررہا ہے کوئی یہ بتانے پر آمادہ نہیں کیونکہ اسرائیل جانتا ہے کہ دہشت، خوف وہراس کورونا وائرس سے زیادہ تباہ کن ہے جبکہ ہمارا میڈیا کورونا وائرس کی غارت گری سے دہشت پھیلا رہا ہے، ہمیں سانپ اور مینڈک کی حکایت یاد آرہی ہے۔
اتفاق سے ایک مینڈک کی دوستی سانپ سے ہو گئی ایک دن باتوں ہی باتوں میں مینڈک نے سانپ سے کہا۔ لو گ تمہارے ڈسنے سے نہیں مرتے تمہارے خوف اور دہشت سے مر جاتے ہیں۔ سانپ نے کہا کہ اگر تو میرا دوست نہ ہوتا تو بتاتا کہ میں کتنا زہریلا ہوں۔ مینڈک نے کہا ناراض نہ ہو بڑے بھائی ابھی اس کا تجربہ کرلیتے ہیں۔ دیکھو! وہ گھسیارا آرہا ہے تم اس کو ڈسنا اور میں اس کے سامنے ٹرٹرانا شروع کر دوں گا۔ سانپ نے کہا کہ ہاں یہ ٹھیک ہے، آئو! ابھی یہ ثابت ہوجائے گا کہ میں کتنا زہریلا ہوں۔ سانپ نے گھسیارے کو ڈسا تو گھسیار کے جسم میں خوف کی ایک لہر دوڑنے لگی وہ سمجھا کہ سانپ نے ڈس لیا ہے مگر مینڈک کی ٹرٹراہٹ سنی تو بولا کم بخت تو نے تو میری جان ہی نکال دی تھی اور چل پڑا۔ دوسرے دن گھسیارا آیا تو سانپ بہت حیران ہوا ور بڑبڑایا ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ مینڈک نے کہا کہ بھیا جی! آج میں کاٹوں گا اور تم اس کے سامنے سے پھنکارتے ہوئے گزر جانا۔ مینڈک سے گھسیارے کے پائوں میں کاٹا اور سانپ پھنکارتا ہوا گزر گیا۔ گھسیار نے سانپ دیکھا تو گھاس پھنک کر سانپ نے کاٹ لیا، سانپ نے کاٹ لیا چلاتا ہوا گائوں کی طرف بھاگنے لگا مگر راستے ہی میں گر کر مر گیا۔ میڈیا نے بھی کورونا وائرس کا اتنا خوف پھیلا دیا ہے کہ لوگ چھینک آنے پر بھی بال بچوں سے الگ تھلگ ہوکر گھر کے کسی کونے میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں کیا یہ دہشت گردی نہیں؟
ہم چیف جسٹس پاکستان سے التجا کرتے ہیں کہ وہ حکومت اور میڈیا کو اس دہشت گردی سے روکیں ورنہ غربت کو دور کرنے کے دعویدار غریبوں کو ختم کر دیں گے۔