انسانیت کی خاطر

294

ابتداء ہی میں واضح کردوں کہ جو کچھ بھی لکھنے جارہا ہوں اس کا آج کے حالات سے کوئی تعلق نہیں‘ ان دنوں تو لاک ڈائون ہے‘ اسی لیے کوئی مجمع سڑکوں کے کنارے یا کسی مارکیٹ کے باہر نظر نہیں آتا‘ بہر حال ممکن ہے کسی نے دیکھا نہ ہو کم از کم سنا ضرور ہوگا کہ کوئی مداری مجمع میں شامل لوگوں کو مختلف کرتب دکھانے کے بعد آخر میں کہتا ہے کہ سب اپنا دل تھام کر بیٹھیں‘ بہتر ہے کہ آنکھیں بند کرلیں اور اپنا اپنا سر ٹانگوں میں دبا لیں‘ کہ سانپ چھوڑنے والا ہوں یہ بہت خطر ناک سانپ ہے کسی بھی وقت مشتعل ہوکر کسی کے بھی ماتھے پر ڈنک ماردے گا لہٰذا کوئی ہلے نہ آنکھیں کھولے‘ اب مداری سانپ نکالتا ہے‘ مجمع بالکل کر جم کر بیٹھا ہوتا ہے اور کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلتا‘ بس یہی وہ لمحہ ہوتا کہ جب مداری کے اپنے چھوڑے ہوئے آدمی ہاتھ کی صفائی سے مجمع میں شامل لوگوں کی جیبیں صاف کر جاتے ہیں۔ کیا کورونا جیسی صورت حال ایسی نہیں کہ پوری دنیا کو خوف زدہ کرکے ضرور کوئی مافیا ملکوں کی جیبیں صاف کرسکتا ہے؟ اس وقت صورت حال یہ بنی ہوئی ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی خوف زدہ کردینے والی اپیل کے باعث پوری دنیا میں خوف پھیلا ہوا ہے۔ بحری جہاز‘ ریل گاڑیاں ہوائی جہاز‘ روڈ ٹرانسپورٹ سب بند ہیں۔ بازار‘ تعلیمی ادارے‘ دفاتر اور حتی کہ عبادت خانے تک تالہ بندی کی زد میں آگئے ہیں صرف یہی کہا جارہا ہے کہ سماجی فاصلہ بڑھایا جائے‘ کوئی کسی سے ہاتھ ملائے اور نہ گلے ملے‘ نہ ہجوم میں جایا جائے۔ بس احتیاط اور پرہیز کیا جائے‘ یہ عندیہ ملا ہے کہ ویکسین تیار ہو رہی ہے اور اٹھارہ ماہ کے بعد دستیاب ہوگی‘ تب تک ٹوٹکے ہیں اور احتیاط ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے کی پیشین گوئی کے مطابق یہ سال عالمی معیشت کے لیے بد ترین ثابت ہو گا۔ معیشت کے 3فی صد سکڑنے کا امکان ہے جو 2009ء کی کساد بازاری کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ کو 9ٹریلین ڈالر تک نقصان ہو سکتا ہے۔ خدشہ ہے کہ اس سال امریکی معیشت 5.9فی صد سکڑے گی، یورو کرنسی والے یورپی ممالک کی معیشت 7.5فی صد، جاپان 5.2فی صد جبکہ برطانیہ کی معیشت 6.5فی صد سکڑے گی۔ ادارے کے مطابق عالمی تجارت میں اس سال 11فی صد کمی ہونے کا امکان ہے کورونا وائرس کے بعد عالمی معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ تیل کی پیداوار کے بڑے ممالک سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کا تنازع تھا۔ جسے تیل کی جنگ کا نام دیا گیا۔ ماہرین اسے عالمی معیشت کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دے رہے تھے لیکن یہ خطرہ اب ٹل چکا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی معیشت کو 347 ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ کورونا وائرس اگر دو ماہ جاری رہتا ہے تو عالمی معیشت کو 76.6ارب ڈالر، اگر تین ماہ جاری رہتا ہے تو 155.9 ارب ڈالر اور چھے ماہ تک جاری رہنے کی صورت میں 346.9ارب ڈالر تک نقصان ہو سکتا ہے۔ اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو چین کو عالمی مالیت کے 2/3کو تنہا برداشت کرنا پڑے گا۔
امریکا کے ابتدائی بے روزگاری کے دعوے آنے والے ہفتوں میں چالیس ہزار سے زیادہ ہو جائیں گے یہاں نوکریاں، دولت اور اعتماد سب ختم ہو جائے گا ملک میں بیروزگاری کا تناسب دوگنا بڑھ جائے گا۔ جس کے بعد تقریباً ہر ماہ ایک ملین نوکریاں ختم ہو جائیں گی۔ آئی ایم ایف نے اپنی حالیہ رپورٹ میں عالمی معیشت کا بہت ہی خوفناک منظر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے‘ اس کی رپورٹ کے مطابق ایشیاء چین اور بھارت ایسے ملک ہیں جو کساد بازاری سے بچ جائیں گے‘ کیا یہ سب کچھ ایشیاء میں بھارت کو معاشی قوت ثابت کرنے کے لیے ہے؟ یہاں تک نتیجہ اخذ کرنے کا کام قاری پر چھوڑ رہے ہیں۔
تین ماہ سے دنیا کے بیش تر ممالک کو کورونا وائرس کی وبا کا سامنا ہے جس کے باعث کئی ہزار اموات ہو چکی ہیں اور لاکھوں افراد ایسے ہیں جو اس وائرس سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں تاہم دنیا کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اور عوام بالواسطہ طور پر اس وائرس کے پھیلنے کے سبب متاثر ہو رہے ہیں۔ ان تمام تر سنگین حالات میں کہ جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے باعث نظام زندگی متاثر ہے وہاں ساتھ ساتھ دنیا میں ان ممالک اور علاقوں کی بات بھی سامنے آنا بہت ضروری ہے کہ جو نہ صرف اس وبا سے نبرد آزما ہیں بلکہ ساتھ ساتھ عالمی صہیونزم اور ظلم کا شکار ہیں۔ اس عنوان سے ہمارے سامنے آج کی موجودہ صورتحال میں فلسطین کا مسئلہ سب سے اہمیت کا حامل ہے، اسی طرح کشمیر میں بھی بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جار ی ہے۔ آج انسانیت کی خاطر پوری دنیا کو چاہیے کہ امریکا پر دباؤ ڈالے اور ایران کے خلاف معاشی دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے، صہیونیوں کے ظلم و ستم کو روکا جائے، اگر واقعی یہ عالمی قوتیں انسان دوست ہیں تو آج وقت ہے کہ اپنے ان دعووں کو سچا کر دکھائیں۔