تبدیلی کا بحران

373

جاوید الرحمن ترابی
بھارتی سرکار کیا کرنے جارہی ہے اور اقوام عالم نے نظریںکیوں چرا رکھی ہیں‘ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا‘ اسلام آباد کی خاموشی نے مایوسی بڑھادی ہے‘ دنیا کے رویے نے رلا دیا ہے‘ سری نگر سے اٹھنے والی آواز کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔ اس ماحول میں دہلی حکومت نے کشمیر کی شناخت کی تبدیلی اور خصوصی قوانین کے خاتمے کے آٹھ ماہ‘ دو سو چالیس روز کے بعد پاکستان میں بھی ایک تبدیلی آئی کہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام ہٹادیے گئے‘ ان کی جگہ کون لے گا؟ کوئی علم نہیں ہے‘ ایک نام سامنے آیا ہے شہر یار آفریدی‘ لیکن فیصلہ تو کمیٹی میں ہوگا اور تمام پارلیمانی جماعتوں کو کرنا ہے‘ تجویز ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کشمیر کمیٹی سے اپنا ایک رکن دستبردار کراکر اس رکن کی جگہ سینیٹر راجا ظفر الحق کو کمیٹی میں شامل کردے تو کمیٹی انہیں اپنا چیئرمین منتخب کرلے تویہ ایک اچھا انتخاب ہوگا، بہر حال یہ فیصلہ ہوتا ہے یا نہیں البتہ بھارت نے اپنے مکروہ عزائم بڑھانے شروع کیے ہوئے ہیں جموں وکشمیر ری آگنائزیشن آرڈر2020 کے نام سے جاری ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ریاستی ڈومیسائل کی نئی تشریح کی گئی تھی، جس کے تحت کشمیر میں پندرہ سال تک مقیم رہنے والے، اور یہاں سات سال تک تعلیم حاصل کرنے، اور دسویں اور بارہویں جماعت کا امتحان دینے والے ملازمت کے حق دار ہوں گے۔ ماضی میں 35Aکے تحت ان تمام قوانین کی تدوین اور تیاری کا اختیار کشمیر اسمبلی کو حاصل تھا۔ ان دفعات کے خاتمے کے بعد اب بھارتی حکومت نے یہ سارے کام اپنے ذمے لے لیے ہیں۔
ڈومیسائل قانون کی نئی تشریح کے مطابق اب بھارتی حکومت کے کشمیر میں سات سال تک تعینات رہنے والے اعلیٰ افسروں، آل انڈیا سروس آفیسرز، بھارتی حکومت کے کشمیر میں نیم خودمختار اداروں، کارپوریشنوں، پبلک سیکٹر بینکوں، بھارتی یونیورسٹیوں کے اہلکاروں کے بچے اور وہ خود یہاں کشمیر کے لیے مختص اسامیوں پر ملازمت کرنے کے اہل ہوں گے۔ فوری طور پر نافذ العمل اس قانون کے تحت بھارتی باشندے کشمیر میں جریدہ اور غیر جریدہ اسامیوں پر درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ اس قانون کے نفاذ کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا تھا جب دنیا کی توجہ کورونا بحران کی طرف تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے نریندر مودی کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے کہ نریندر مودی کورونا کی جانب دنیا کی توجہ مبذول ہونے کا فائدہ اُٹھاکر کشمیر میں اپنے فاشسٹ ہندوتوا ایجنڈے پر عمل درآمد کررہا ہے، اور دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ عمران خان نے اس قانون کو کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے اسے چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ کوشش سے کشمیر میں بھارت کے عزائم دنیا پر آشکار ہوگئے ہیں۔
اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ترجمان نے بھی بھارت کے نئے قانون کو کلی طور پر مسترد کردیا ہے۔ آزادکشمیر کے صدر مسعود خان، اور وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے بھی بھارت کے نئے قانون کی مذمت کی ہے۔ پارلیمانی کشمیر کمیٹی نے کوئی رد عمل نہیں دیا‘ ہماری پارلیمنٹ بھی خاموش ہے اس قانون کی زد چونکہ بلا تمیز مذہب اور علاقہ ریاست جموں وکشمیر کے تمام باشندوں پر پڑ رہی تھی، اس لیے کشمیری مسلمانوں سے زیادہ جموں کی ہندو آباد ی اور نوجوان نسل نے اس فیصلے کے خلاف بے چینی ظاہر کرنا شروع کردی تھی۔ جموں کے ہندو نوجوانوں کو اس وقت وادی کے پریشان حال مسلمان طلبہ سے مسابقت درپیش ہے، اور وادی کی تین عشروں سے مخدوش صورتِ حال نے جموں کے ہندو طلبہ کے لیے مقابلے میں آسانی پیدا کردی ہے، مگر جب پورے بھارت سے ایک نئی کلاس یہاں مقابلے اور مسابقت میں اترتی تو یہ جموں کی ہندو آبادی اور نوجوان نسل کے لیے ایک نیا دردِ سر ہوتا۔ اس خطرے کو جموں میں پوری طرح محسوس کیا گیا، اور جموں کے علاقے سے ہندو طلبہ و طالبات نے مودی حکومت کو برسرِ عام ویڈیو پیغامات میں دھمکانا شروع کیا کہ کورونا وائرس کا معاملہ ختم ہونے دو، پھر دیکھنا پورا جموں سڑکوں پر ہوگا۔ خود کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس فیصلے کی یک زبان ہوکر مخالفت کی۔ اس طرح مخالفانہ ماحول بنتا دیکھ کر بھارتی حکومت نے دوسرے روز ہی اس قانون میں مزید ترمیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ گریڈ ایک سے سترہ تک تمام اسامیاں جموں وکشمیر کے پشتینی باشندوں کے لیے ہی مختص رہیں گی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے احتجاج اور مفاد کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتی اور عمل کرتی ہے اس قانون کی زد صرف وادی کے نوجوانوں کے مفاد پر پڑتی تو نریندر مودی حکومت احتجاج اور مطالبات کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دیتی۔ اس ترمیم سے کشمیر کے مسلمان تشخص پر منڈلانے والا خطرہ وقتی طور پر توٹل گیا ہے، مگر بھارتی حکومت ایک دو قدم آگے، ایک قدم پیچھے کا یہ کھیل جاری رکھے گی۔