۔18 سال پہلے کورونا وائرس جیسی احتیاط کا قصہ

771

 آج میں کوروناوائرس کے تناظر میں ایک کہانی سناتا ہوں، یہ ایک سچا اور میرے اپنے شہر کراچی کا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ ایک بڑا سانحہ تھا اس باپ کے لیے جس کا ہنستا مسکراتا جوان بیٹا دیکھتے ہی دیکھتے محض چند روز میں بستر مرگ پر پہنچ گیا اور پھر… اس سچے اور دردناک قصے کے پیچھے چھپی اصل کہانی تو اس جوان لڑکی کی ہے جس کی شادی کو ابھی محض چند ہی سال ہوئے تھے۔ ذرا سوچیے چند سال کی سہاگن پر کیا گزری ہوگی جب اُسے بار بار اس کے اپنے والدین، ساس سسر اور دیگر رشتے دار، عزیز و اقارب اور ڈاکٹر یہ بتا رہے ہوں گے کہ ’’سمجھو بیٹی آپ کا شوہر اب آپ کے لیے خطرناک ہوچکا ہے، آپ ان کے قریب نہیں رہ سکتیں، آپ صرف دور سے انہیں دیکھ سکتی ہیں، کیونکہ انہیں جس وائرس نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے اب ان کی جان لینے کے درپے ہے۔ وہ انتہائی خطرناک ہے، اگر احتیاط نہیں کی گئی تو وہ وائرس قریب کے تمام لوگوں کو اپنی لپٹ میں لے سکتا ہے‘‘۔ مگر شاباش ہے اس خاتون پر جس نے اپنے ساس سسر ہی نہیں بلکہ اپنے والدین کو بھی سمجھا دیا کہ یہ میرے شوہر ہیں، میرے مجازی خدا ہیں میں کیسے ان سے دور ہوسکتی ہوں، میں تو ان ہی کے ساتھ رہوں گی اور یہ جلد ٹھیک بھی ہوجائیں گے، میں ان کو ہمت دلاتے رہوں گی، اللہ میرے شوہر جلد صحت یاب کردے گا۔
نوجوان تکلیف کے عالم میں اپنی بیوی اور گھر والوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ گلشن اقبال یونیورسٹی روڈ پر واقع ایک نجی اسپتال کا دردناک منظر تھا اور اسپتال کے بستر مرگ پر لیٹا نوجوان ملک کی ایک مشہور آٹو موبائل کمپنی کے مالک کا بیٹا تھا جو اچانک بیمار ہونے سے چند روز قبل ہی افریقا سے واپس آیا تھا وہ اپنے والد کا معاون ومدد گار تھا اور بزنس کے سلسلے ہی میں افریقا گیا تھا۔
نوجوان کو افریقا سے واپس کراچی آنے کے بعد پھیپھڑوں میں اور سانس لینے میں تکلیف کی شکایت پر نجی اسپتال لیکر ان کی اہلیہ اور والدین آئے تھے۔ جہاں انہیں داخل کرنے کے بعد میڈیکل ٹیسٹ لیے گئے جس کی رپورٹ آنے سے معلوم چلا کہ یہ کانگو وائرس کا شکار ہوئے ہیں، علاج شروع ہوا مگر طبیعت سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑنے لگی۔ کمپنی کے مالک نے بیٹے کی صحت یابی کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہایا، بہترین علاج کے لیے شہر کے بڑے اور ماہر ڈاکٹرز کے ساتھ مشورے کیے اور آغا خان اسپتال کے ماہر طبی معالج سے رابطہ کیا انہوں نے بھی مریض کی رپورٹ اور مریض کو دیکھ کر کانگو وائرس کا شبہ برقرار رکھا۔ یہ نوجوان ملک کے ممتاز صنعت کار اور گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنی کا بیٹا تھا۔ ڈاکٹر کی ہدایت پر انہیں ہنگامی بنیادوں پر آغا خان اسپتال منتقل کیا گیا۔ آغا خان اسپتال میں بھی مریض کو چھ فٹ لمبا اور چار فٹ چوڑے کمرے کے بیڈ پر لٹادیا گیا۔ ساتھ ہی تقریباً وہی تمام احتیاط اختیار کرنے کا مشورہ دیا جو ان دنوں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے دی جارہی ہے۔ گوکہ 2003 میں لوگوں کو آئسولیشن وارڈ میں رکھنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ آغا خان اسپتال نے یقینا نوجوان کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہوگی مگر وہ محض چار دن ہی میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اس نے اپنی بیوی کی نظروں کے سامنے ہی دم توڑا۔ وہ تو دنیا سے چلا گیا لیکن اس کی نوجوان بیوہ نے شوہر کی خدمت کی ایک مثال قائم کردی اور اہم بات یہ ہے کہ اسے کسی وائرس نے نقصان نہیں پہنچایا حالانکہ وہ مرتے دم تک شوہر کی سانسوں کے ساتھ سانس لیتی رہی اور ہر لمحہ اس کے ساتھ رہی، اس دوران وہ اپنے بیمار شوہر کو جلد ٹھیک ہوجانے کا یقین بھی دلاتی رہی اور ان کے سامنے بیٹھ کر اللہ سے دعائیں بھی مانگتی رہی، اسے اپنی زندگی سے زیادہ اپنے شوہر کی زندگی عزیز تھی۔ وہ اپنے والدین اور ساس سسر سے بار بار کہتی رہی کہ آپ لوگ پریشان مت ہوں یہ جلد ٹھیک ہوجائیں اور مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ پھر ایسا ہی ہوا نوجوان صنعت کار کا صنعت کار بیٹا تو اپنی زندگی پوری کرگیا مگر ان کی خدمت گار بیوہ کو کسی وائرس نے نقصان نہیں پہنچایا، وہ اپنے بیوہ ہونے کو بھی اللہ کی مرضی قرار دیا کرتی ہیں مگر وہ 18 سال بعد بھی الحمدللہ کوئی ایسی غیرمعمولی بیماری کی لپیٹ میں نہیں آئیں۔ آغا خان اسپتال نے ان کے گھر ادویات کا اسپرے بھی کرایا۔ سب گھر والوں کو خصوصی مشورے بھی دیتے رہے بلکہ وائرس سے اسی طرح ڈراتے رہے جس طرح آج پوری دنیا کو کورونا وائرس سے ڈرایا جارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نوجوان کی تدفین بھی اسٹیل ٹاون کے قریب ان کے خاندان کے آبائی قبرستان میں اسپتال کے مخصوص عملے نے جراثیم سے ڈرا کر خود کی۔ کسی رشتے دار کو مرحوم کے جسد خاکی کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ جبکہ میت کو ایمبولینس سے اُتارے بغیر نماز جنازہ ادا کی گئی تھی۔ بعدازاں اسپتال کے عملے نے مرحوم کی خود تدفین کی اس مقصد کے لیے عملے نے پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ (پی پی ای) کٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔ بالکل اسی طرح سے جیسے آج کل کورونا کا شکار ہوکر جاں بحق ہونے والوں کی تدفین کے لیے پہنا ہوا ہوتا ہے۔ نوجوان کا نماز جنازہ بھی محدود افراد کی موجودگی میں پڑھایا گیا تھا کیونکہ اسپتال نے ایسا کرنے کی تاکید کی تھی جبکہ مرحوم کا آخری دیدار بھی نہیں کرایا گیا۔ کیونکہ اسپتال نے مرحوم کی میت کو بھی خطرناک قرار دیا تھا۔
سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ یہ سب کچھ خوف کا باعث تھا یا پھر کوئی اور وجہ۔ مزکورہ صنعت کار کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے خاندان کو مرحوم نوجوان کی بیوہ اپنی بیٹیوں سے زیادہ عزیز ہے وہ بہت بڑی صابر و شاکر خاتون ہیں۔ آج اس واقعہ کو 18 سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا مگر اس خاتون نے خاندانی دباؤ کے باوجود دوسری شادی نہیں کی بلکہ اپنے سسرال ہی میں اپنے شوہر کی یادوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ اسے یقین ہے کہ وہ جنت میں اپنے شوہر سے ضرور ملے گی۔ اللہ اس خاتون اور کے تمام گھر والوں کو ہمت دے اور مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے آمین۔
اس واقعہ کو لکھنے کا مقصد پختہ ایمان والی بیوہ کو خراج تحسین پیش کرنا تھا اور سب پر یہ بھی واضح کرنا تھا کہ ڈاکٹرز یا طبی عملے کا بس چلتا تو 18 سال پہلے سے کانگو، ڈینگی اور دیگر امراض کی وبا سے بچاؤ کے لیے ایسے حفاظتی اقدامات کیے جانے شروع ہوچکے ہوتے جو آج کورونا وائرس کے لیے کیے جارہے ہیں۔ میں علما کرام اور حکام کی توجہ کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تدفین کے عمل کی طرف بھی دلانا چاہوں گا تاکہ اس عمل کو مسلمانوں کے شرعی طریقوں کے مطابق یقینی بنایا جاسکے۔ بیماری کی حالت میں موت کو شہادت کا ایک درجہ قرار دیا گیا ہے بھلا شہید کے جسم کی اس طرح کیسے بے حرمتی کی اجازت دی جارہی ہے کہ ان کے لیے ایک الگ قبرستان بناکر عام قبرستانوں سے دور ان کی تدفین کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ علما کرام کو چاہیے کہ وہ پوری قوم کو بتائیں کہ کس حدیث میں کسی شہید کی اس طرح سے اور مخصوص قبرستان میں تدفین کا ذکر ہے۔ ساتھ ہی کسی بیمار کے انتقال کے بعد غیر مسلموں کے ہاتھوں یا ان کے اداروں کی انتظامیہ کی موجودگی یا عدم موجودگی میں تدفین کے بارے میں بھی بھی وضاحت کی جائے۔