عہدِ کورونا میں دومتضاد تصویریں

442

 پاکستان میں ان دنوں ایک وڈیو وائرل ہے جس میں الخدمت کے رضاکار کورونا سے بچائو کی مہم کے دوران ایک مندر میں ہندوئوں کی لکشمی دیوی کے بت کو کورونا سے پاک کرنے کے لیے اسپرے کر رہے ہیں۔ الخدمت پاکستان کی سب سے منظم دینی جماعت جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم ہے۔ الخدمت کے رضاکاروں کے لیے یہ شاید ایک مجسمہ ہی نہیں بلکہ ان کی ذاتی رائے پوچھی جائے تو شاید اس سے بھی آگے بہت کچھ ہو مگر اپنے فرض اور جذبے کے ہاتھوں مغلوب ہوکر وہ اپنے جذبات، نظریات اور احساسات کو کسی صحرا میں دھکیل کر مندر میں اس بت کی صفائی کر رہے ہیں کیونکہ اس سے بھی کچھ انسانوں کے نظریات اور جذبات، عقیدہ اور عقائد وابستہ ہیں۔ ایک مسلمان اکثریتی معاشرے اور ریاست میں یہی اسلام کی روح ہے جہاں اقلیتوں کو ایک مقدس امانت کا درجہ حاصل ہے۔ یہ پاکستان کا منظر اور تصویر ہے جسے گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا میں عدم برداشت سے وابستہ ہر الزام، دشنام سے نوازا گیا۔ یہ تصویر اس بات کا پتا دیتی ہے کہ ہمارا مجموعی معاشرہ اب فطرت کے بنا کردہ اصول یعنی تنوع کو قبول کرتا جا رہا ہے۔ تنوع اس کائنات کو عطا کردہ فطرت کا حسن ہے۔ خالق کائنات کی پہنائی ہوئی خلعت ہے جسے انسان نے مختلف جذبات کے تحت ہر دور میں تار تار کرنے کی کوشش کی۔
دوسری طرف برطانیہ کے معروف اخبار گارجین میں چھپنے والی ایک کہانی ہے۔ اس کہانی میں محبوب علی نامی مرکزی کردار کی تصویر تو نہیں مگر یہ بھارت کی اکثریت کی مجموعی سوچ کی ایک مکمل تصویر پیش کر تی ہے۔ کتابی حد تک اور کہنے کو بھارت ایک سیکولر ملک ہے۔ ایک مدت تک بھارت کے جس آئین کو سیکولر کہا جاتا تھا کہ بھارتیا جنتا پارٹی کے لیڈر اور راجیا سبھا کے رکن سبرامنین سوامی نے حال میں یہ کہہ کر بھارتی آئین میں مسلمانوں کو برابری کے حقوق حاصل نہیں کیونکہ برابر حقوق برابر والوں کو ملتے ہیں، وہ بھرم بھی نہیں باقی نہیں رہنے دیا۔ وہ صاف لفظوں میں کہہ گئے کہ مسلمان اور ہندو چونکہ برابر نہیں اس لیے آئین میں ان کے حقوق بھی برابر نہیں۔
گارجین میں شائع ہونے والی کہانی سے بھارت کی بننے والی تصویر لکشمی دیوی کے مجسمے کی صفائی سے قطعی متضاد تصویر بنتی ہے۔ اس تصویر پر سب سے مناسب عنوان ’’تنوع کی موت‘‘ ہی جچتا ہے۔ جس معاشرے میں تنوع کی حقیقت کو قبول اور ہضم کرنے کا رجحان کمزور ہوتا ہے وہاں تنوع کے ساتھ بہت سے روایتیں اور اچھائیاں مر جاتی ہیں وہ معاشرہ اپنی پوشیدہ طاقت کھو کر ایک خول میں بند ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 2003 میں بھارت کے ایک طویل سفر کے دوران دہلی کی ایک تقریب کے بعد ایک ہندو دانشور ہمارے وفد کا سواگت کھلی بانہوں سے کرتے ہوئے فخریہ انداز میں گویا ہوئے تھے کہ ہندوستان کی سب سے بڑی خوبی اس کا تنوع رہا ہے۔ اس کی وسعت داماں رہی ہے۔ جس نے باہر سے آنے والے حکمرانوں، جرنیلوں اور حملہ آوروں کو قبول کرکے اپنی تہذیب کا حصہ بنایا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ مسلمانوں کے طویل اقتدار کے دنوں میں ہندو مت کا زندہ رہنا اس کی تنوع پسندی اور قبولیت کے باعث ممکن ہوا۔ آج گارجین کی کہانی اس سے قطعی متضاد تصویر بنا رہی ہے۔ کورونا کا غلغلہ ابھی دھیمے سروں ہی میں بلند ہوا کہ بھارت کی تبلیغی جماعت نے دہلی کے نظام الدین ایریا میں پہلے سے طے شدہ اپنا اجتماع منعقد کیا اور اس کے لیے دہلی انتظامیہ کی اجازت بھی حاصل کی گئی۔ اجتماع ختم ہوا تو کورونا کا شور کچھ بڑھ گیا تھا۔ دہلی پولیس نے رپورٹ دی کی بھارت میں کورونا کے پھیلائو کی واحد وجہ تبلیغی اجتماع ہے۔ اس رپورٹ کے بعد بات کا وہ افسانہ بن گیا جو گلی گلی گرم کیک کی طرح فروخت ہوتا چلا گیا۔ ہندو ذہن کے جو ارمان کئی مسلمان مخالف مہمات میں پوری طرح نکلنے نہیں تھے اب نکالنے کا موقع مل گیا۔ فوری طور پر یہ فلسفہ گھڑا گیا کہ مسلمان جان بوجھ کر ہندو اکثریت کو کورونا کا شکار کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے خوراک کے ذخیروں اور پانی کے ٹینکوں میں تھوکتے ہیں۔ اس مہم کا ایک نام بھی تجویز کیا گیا اور اسے ’’کورونا جہاد‘‘ اور اس کے تصوراتی مجاہدین کو ’’کورونا ٹیررسٹ‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد بھارت کی دس ریاستوں نے اعلان کیا کہ جو شخص تبلیغی اجتماع سے واپس آنے والے کسی شخص کی نشاندہی کرے گا اسے دس ہزار روپے انعام دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے ساتھ کاروباری مقاطع کی مہم شروع ہوگئی اور گلی محلوں میں مسلمان محنت کشوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ مہم اس قدر بڑھی کہ بھارت کے سائنس دانوں کو ترس آگیا اور انہوں نے بیان جاری کرکے کہا کہ تبلیغی اجتماع بھارت میں کورونا وائرس کے پھیلائو کا واحد ذریعہ اور وجہ نہیں۔
گارجین کے مطابق اس دوران ایک ایسے بائیس سالہ نوجوان کی وڈیو وائرل ہوئی جو ایک ہجوم میں گھرا ہوا ہے اور ہجوم اسے بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اصرار کررہا ہے کہ تمہارے پیچھے کون ہے؟ یہ محبوب علی ہے جو تبلیغی اجتماع سے لوٹ آیا تھا اور ڈاکٹروں نے اسے مقررہ مدت تک کورنٹائن کرنے کے بعد چھوڑ دیا تھا۔ ہجوم محبوب علی کو مندر لے گیا اور اسے کہا گیا کہ وہ اسلام چھوڑ کر ہندو مت قبول کرنے کا اعلان کرے۔ محبوب علی نے یہ اعلان کیا یا نہیں گارجین نے یہ بات نہیں لکھی۔ ایک طرف فوٹو گرافر کے کیمرے سے بننے والی پاکستان کی تصویر تو دوسری طرف اخبار کے مضمون سے بننے والی تصویریں دومتصاد رویوں کی ہی نہیں دومتضاد راستوں اور متضاد منزلوں اور متضاد نتائج کی کہانی سنا رہی ہیں۔ گارجین کی تصویر اور خاکہ پہلا واقعہ ہے نہ آخری۔ ایسی بہت سی تصویریں اور تحریریں آتی رہیں مگر ہمیں اپنی مندر والی تصویر پر قائم بھی رہنا ہے اور اسی پر فخر بھی کرنا ہے اور ایسی کسی تصویر کے جواب میں اپنا شعور اور شعار ترک نہیں کرنا۔ وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں۔