پوپ کا سیکولر ازم اور مغرب پرستی

553

 پوپ فرانسس کے ’’سیکولرازم‘‘ اور ’’مغرب پرستی‘‘ نے ہمیں ششدر کردیا۔ پوپ اور سیکولرازم؟ پوپ اور مغرب پرستی؟، حیران نہ ہوں پوپ کا بیان ملاحظہ فرمائیں۔ روزنامہ جنگ کراچی کی خبر کے مطابق ’’کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ کورونا وائرس ’’انسانوں‘‘ کی جانب سے دنیا کو بگاڑنے اور چیزوں کی قدر نہ کرنے پر ’’قدرت‘‘ کا ردِعمل ہوسکتا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق پوپ فرانسس کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ کورونا وائرس ’’قدرت‘‘ کا غصہ ہے یا نہیں مگر حالات سے لگتا ہے کہ قدرت کا ردعمل ہے۔ کیوں کہ ’’ہم انسانوں‘‘ نے اس دنیا کا ماحول برباد کردیا ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 9 اپریل 2020ء)
مغرب میں پاسکل نے کہا کہ خدا گم ہوگیا ہے۔ نٹشے اس سے آگے بڑھا اس نے خدا کی موت کا اعلان کردیا۔ خدا زندگی اور کائنات میں موجود تھا تو زندگی اور کائنات کے ہر واقعے کی تعبیر وجود باری تعالیٰ سے کی جاتی تھی مگر مغرب میں خدا زندگی اور کائنات سے غائب ہوا تو زندگی کی تفہیم وحی سے بیزار عقل کی روشنی میں کی جانے لگی۔ کائنات کے نظم کی تعبیر کے لیے ’’فطرت کے قوانین‘‘ اور ’’قدرت‘‘ کے تصور سے مدد لی جانے لگی۔ چناں چہ مغرب کے تمام سیکولر اور لبرل دانش ور اپنی گفتگوئوں اور تحریروں میں فطرت یعنی Nature اور Law of Nature کی اصطلاحیں کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ مگر پوپ تو لامذہب نہیں ہیں۔ چناں چہ انہیں صاف کہنا چاہیے تھا کہ کورونا وائرس ’’GOD‘‘ کا غصہ محسوس ہورہا ہے۔ مگر انہوں نے اپنے بیان میں ’’GOD‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا اور اس کی جگہ ’’قدرت‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ حالاں کہ پوپ کیتھولک فرقے کی سب سے بڑی ’’روحانی‘‘ اور ’’مقدس‘‘ ہستی ہیں اور ان کا سارا تشخص مذہبی ہے۔ روزنامہ جنگ میں پوپ سے ’’قدرت‘‘ کا لفظ منسوب ہوا ہے۔ ہمیں شبہ ہوا تو ہم نے سی این این کی ویب سائٹ پر پوپ کا بیان دیکھا۔ ہمارا خیال درست ثابت ہوا۔ پوپ نے اپنے بیان میں Nature کی اصطلاح استعمال کی ہوئی تھی جس کا ایک ترجمہ فطرت اور دوسرا ترجمہ قدرت ہے۔ لیکن کوئی فطرت کا لفظ استعمال کرے یا قدرت کا دونوں الفاظ کا تشخص مذہبی نہیں ہے۔ جہاں تک انگریزی لفظ Nature کا تعلق ہے وہ انگریزی میں صدیوں سے خدا کے نعم البدل کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ لیکن پوپ کا سیکولرازم صرف قدرت یا Nature کی اصلاح ہی سے ظاہر نہیں۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پوپ ’’Nature‘‘ کو تو ’’باشعور‘‘ اور ’’حساس‘‘ سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ انسان نے ’’Nature‘‘ کے ساتھ چوں کہ بہت بُرا سلوک کیا ہے اس لیے ’’Nature‘‘ انسانوں پر اپنا غصہ نکال سکتی ہے۔ مگر عیسائیت کی سب سے بڑی روحانی، مذہبی اور اخلاقی شخصیت کو یہ خیال نہ آیا کہ انسانوں بالخصوص مغربی انسانوں نے خدا اور اس کے ادیان کے ساتھ جو ہولناک سلوک کیا ہے اور کررہے ہیں اس سلوک پر خدا انسانوں سے ناراض ہو کر ان پر اپنی ناراضی کا اظہار کرسکتا ہے۔ کیا عیسائیت کا خدا Nature سے بھی کم باشعور اور کم حساس ہے؟۔
ایسا نہیں ہے۔ عیسائیت کے خدا کو ساری دنیا جانتی ہے۔ عیسائیت کا خدا صاحب علم بھی ہے اور گمراہی اور ضلالت پر سزا دینے والا بھی۔ عہد نامہ قدیم کے باب پیدائش میں سیدنا لوطؑ کی ہم جنس پرست قوم کی تباہی کی داستان موجود ہے۔ فرشتے حضرت لوطؑ کے پاس پہنچے اور ان سے عرض کی۔
’’جو کوئی تیرا اس شہر میں ہو سب کو اس مقام سے باہر نکال لے جا کیوں کہ ہم اس مقام کو نیست کریں گے۔ اس لیے کہ ان کا شور خدا وند کے حضور بہت بلند ہوگیا ہے اور خداوند نے اسے نیست کرنے کو ہمیں بھیجا ہے۔ (عہد نامہ قدیم۔ کتاب پیدئش۔ صفحہ 18)
عہد نامہ قدیم کے باب خروج میں فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کا ذکر تفصیل سے آیا ہے۔
’’اور خداوند نے موسیٰ سے کہا اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا تا کہ پانی مصریوں اور ان کے رتھوں پر بہنے لگے۔ اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور صبح ہوتے ہوتے سمندر پھر اپنی اصلی قوت پر آگیا اور مصری الٹے بھاگنے لگے اور خداوند نے سمندر کے بیچ ہی میں مصریوں کو تہہ و بالا کردیا اور فرعون کے سارے لشکر کو سمندر میں غرق کردیا‘‘۔
(عہد نامہ۔ قدیم۔ کتاب خروج۔ صفحہ 67)
عیسائیوں کی مقدس کتاب کے یہ اقتباسات بتارہے ہیں کہ عیسائیوں کا خدا انسانوں سے ان کے گناہوں، نافرمانیوں اور انحرافات کی وجہ سے ناراض ہوجاتا ہے۔ اس کی ناراضی بڑھ جائے تو وہ شہروں اور سلطنتوں تک کو الٹ دیتا ہے اور فرعونوں کو غرق کردیتا ہے۔ کورونا وبا سے مغرب کے سیکولر، لبرل اور مفاد پرست سیاست دانوں اور ذرائع ابلاغ کو اگر مغرب کے گناہ، اس کے مظالم اور اس کی فرعونیت یاد نہیں آرہی تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ مغرب کے سیکولر لوگ تو خدا اور اس کی جزا و سزا کے تصور پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔ المیہ یہ ہے کہ عیسائیت کی سب سے بڑی روحانی اور مذہبی شخصیت پوپ کو بھی اب تک یہ خیال نہیں آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ خدا پوری دنیا کے انسانوں بالخصوص مغربی انسانوں سے ناراض ہوگیا ہو اور کورونا کی وبا خدا کی ناراضی کے ایک مظہر کے سوا کچھ بھی نہ ہو۔ یہ صورت حال بتارہی ہے کہ مغرب کے سیکولر اور لبرل افراد کی طرح پوپ کی شخصیت کی جڑیں سائنس اور اس کے تصور فطرت یا concept of nature میں پیوست ہیں۔ پوپ کی شخصیت کی جڑیں بائبل میں پیوست نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا کی وبا کے حوالے سے پوپ کو ’’Nature‘‘ اور اس کا ’’انتقام‘‘ تو یاد آیا مگر بائبل کا خدااور اس کا ’’انتقام‘‘ یاد نہیں آیا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پوپ کی روحانیت اور مذہبیت کا یہ عالم ہے تو مغرب کے عام عیسائیوں کی ’’روحانیت‘‘ اور ’’مذہبیت‘‘ کا کیا عالم ہوگا؟۔
پوپ فرانسس نہ امریکی ہیں نہ یورپی۔ ان کا تعلق ارجنٹائن سے ہے اور ارجنٹائن لاطینی امریکا کا ایک ملک ہے۔ مگر اس کے باوجود پوپ اہل مغرب کی طرح ’’مغرب پرست‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ ان کی یہ مغرب پرستی ان کے زیر بحث بیان میں بھی موجود ہے۔ پوپ نے فرمایا ہے کہ:
’’ہم انسانوں‘‘ نے اس دنیا کا ماحول خراب کردیا ہے‘‘۔اس بیان میں ’’ہم انسانوں‘‘ کی اصطلاح اہم ہے۔ اس اصطلاح سے لگ رہا ہے کہ دنیا کا ماحولیاتی بحران دنیا کے سارے انسانوں کا پیدا کردہ ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ فضا کی زہرآلودگی میں امریکا اور یورپ کا حصہ 90 فی صد ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ماحول کی خرابی کے ذمے دار ’’سب انسان‘‘ یا ’’ہم انسان‘‘ نہیں بلکہ صرف ’’مغربی انسان‘‘ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈھائی سو سال پہلے صنعتی انقلاب ایشیا، افریقا یا انٹارکٹیکا میں نہیں آیا تھا۔ صنعتی انقلاب یورپ میں آیا تھا۔ یہاں سے یہ انقلاب امریکا پہنچا۔ چوں کہ صنعتی انقلاب مغرب میں آیا اس لیے کارخانے بھی مغرب میں لگے۔ یہ کارخانے ڈھائی سو سال سے فضا میں زہر اُگل رہے ہیں۔ گاڑیوں اور ریفریجریٹرز سے خارج ہونے والا دھواں اور زہریلی گیس بھی سب سے زیادہ امریکا اور یورپ کے معاشروں نے پیدا کی۔ اس صورت حال نے جو ماحولیاتی بحران پیدا کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ خود مغرب کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے درجہ حرارت میں ایک سے ڈیڑھ ڈگری اضافہ ہوا ہے اور آئندہ برسوں میں زمین کا درجہ حرارت مزید ایک ڈگری بڑھ سکتا ہے۔ اس سے سمندر کی سطح میں غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے اور دنیا کے کئی ساحلی شہر سمندر برد ہوسکتے ہیں۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ شہزادہ چارلس نے چند ہفتے پہلے کہا تھا کہ انسانوں کے پاس اپنی بقا اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے دس سے بارہ سال کی مہلت ہے۔ یعنی اہل مغرب کی اندھا دھند مادی ترقی نے پوری انسانیت کو بقا کے مسئلے سے دوچار کردیا ہے۔ مگر مغرب کے ماہرین اس سلسلے میں پوری انسانیت کو ذمے دار ٹھیراتے رہتے ہیں۔ پوپ نے بھی اپنے بیان میں ’’انسانوں‘‘ کا نام لیا ہے۔ بلاشبہ روس، چین اور بھارت بھی اب فضائی آلودگی پیدا کررہے ہیں اور چین اور بھارت کی تیز رفتار مادی ترقی کے نتیجے میں چین اور بھارت مستقبل میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ملک بن سکتے ہیں۔ مگر ایسا مستقبل قریب یا مستقبل بعید میں ہوگا۔ اس وقت جو ماحولیاتی بحران ہمارے سامنے ہے اس کے ذمے دار ’’چینی انسان‘‘ ’’بھارتی انسان‘‘ نہیں اس کے ذمے دار ’’مغربی انسان‘‘ ہیں۔ مگر پوپ نے اپنے بیان میں ’’انسانوں‘‘ کا ’’مجرد‘‘ ذکر کرکے ’’مغربی انسانوں کے جرم پر پوری ’’ذمے داری‘‘ کے ساتھ پردہ ڈالنا ضروری سمجھا۔
یہ طرزِ عمل مغرب کے عمومی رویے کے خلاف ہے۔ مغرب کے لوگوں نے گزشتہ ایک ہزار سال میں نام لے کر اسلام اور مسلمانوں پر بھیانک اور بے بنیاد الزامات لگائے ہیں۔پوپ اربن دوم نے 1095ء میں اسلام کو نام لے کر ’’شیطانی مذہب‘‘ قرار دیا۔ پوپ بینی ڈکٹ شش دہم نے 2009ء میں نام لے کر رسول اکرمؐ کی توہین کی۔ مغرب مدتوں سے مسلمانوں کو ’’بنیاد پرست‘‘ اور ’’انتہا پسند‘‘ قرار دے رہا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح کا استعمال عام ہے۔ اہل مغرب اپنی دنیا کو ’’First World‘‘ اور غریب دنیا کو Third World کہتے ہیں۔ ٹرمپ نے کورونا وائرس کو کھل کر ’’چینی وائرس‘‘ کہا۔ امریکا کے وزیر خارجہ نے کورونا کو ووہان کی نسبت سے ’’ووہان وائرس‘‘ کہہ کر پکارا مگر پوپ فرانسس کو ’’نیچر کا انتقام‘‘ نظر بھی آیا تو انہوں نے اس انتقام کے پس منظر میں موجود ماحولیاتی تباہی کو ’’انسانوں‘‘ کے کھاتے میں ڈالا۔ حالاں کہ ایک عام اخبار کا ایک عام قاری بھی جانتا ہے کہ دنیا کا ماحولیاتی بحران ’’سب انسانوں‘‘ یا ’’ایشیائی انسانوں‘‘ نے نہیں ’’مغربی انسانوں‘‘ نے پیدا کیا ہے۔ خدا نے انسانوں کو یہ زمین ’’جنت ارضی‘‘ تخلیق کرنے کے لیے دی تھی مگر مغربی انسانوں نے اسے روحانی، اخلاقی، علمی، تہذیبی، سماجی اور مادی معنوں میں بھی ’’جہنم ارضی‘‘ بنادیا ہے۔