عدالتی فیصلوں میں بار بار تبدیلی

235

اس بارے میں ہم پہلے بھی بارہا توجہ دلاچکے ہیں کہ عدلیہ کے نظام کو نیچے سے لے کر بالائی سطح تک تطہیر کی ضرورت ہے ۔ خصوصی عدالتیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف اسی ہدایت کے تحت قائم کی جاتی ہیں کہ انہیں سرکار ی وکیل کی ہدایت کے تحت چلنا ہے اور لازمی طور پر سخت ترین سزائیں سنانی ہیں ۔ ماتحت عدالتوں کی بھی صورتحال قابل رشک نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پر اعلیٰ عدالتوں میں ماتحت عدلیہ کے فیصلے یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ اب تو صورتحال مزید ابتر ہوتی جارہی ہے کہ عدالت عالیہ کے فیصلے بھی عدالت عظمیٰ میں جا کر تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ اس بارے میں باقاعدہ غور و فکر کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں کر ہورہا ہے ۔ کیا کرپشن منہ زور گھوڑا بن چکی ہے یا ماتحت عدلیہ ناکارہ اور نااہل ہے ۔ ہر دو صورتیں انتہائی تشویشناک ہیں ۔ تازہ کیس پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا ہے جسے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ختم کردیا گیا تھا اور اس کی جگہ پاکستان میڈیکل کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔ یہ کیس ایک تماشا کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ ایک فیصلے کے ذریعے اس ادارے کو بحال کیا جاتا ہے مگر حکومت اسے کسی خاطر میں نہیں لاتی ۔ کئی ماہ گزرنے کے بعد توہین عدالت کے کیس میں کئی دفعہ کی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد بالاخر اس کے رجسٹرار کو کام کرنے کی بہ کراہت اجازت دی جاتی ہے تو اس کے چند دن بعد ہی عدالت عظمیٰ اس کے رجسٹرار کو سبکدوش کرکے ایک گیارہ رکنی ایڈہاک کمیٹی قائم کردیتی ہے ۔ اس پورے قضیے میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ملازمین رُل گئے ہیں ، جنہیں چھ ماہ ہونے کو آگئے ہیں ، اب تک تنخواہیں نہیں دی گئی ہیں ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ان ملازمین کا کیا قصور ہے جو انہیں تنخواہیں نہیں دی جارہی ہیں ۔ یہ ملازمین اپنے بچوں کے تعلیمی اداروں کی فیسیں کہاں سے ادا کریں گے ، بجلی و گیس کے بل کیسے دیں گے ، بغیر کرایہ ادا کیے انہیں مالک مکان اپنے مکان میں کیوں رہنے دے گا ، روز کھانا کہاں سے کھائیں گے ۔ جب ان ملازمین کی تنخواہیں بجٹ میں شامل ہیں تو وفاقی وزارت صحت ان کی تنخواہیں کیوں نہیں دے رہی ہے ۔ ان ملازمین کو محض اس لیے پریشان کیا جارہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نیازی اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ان کے ادارے سے خفا ہیں ۔ عدالت ایک مرتبہ کسی فیصلے پر یکسو کیوں نہیں ہوجاتی ۔ اصولی طور پر تو وزیر سے لے کر سیکریٹری تک کو توہین عدالت میں سز اہونی چاہیے تھی مگر معاملہ وہیں کا وہیں اٹکا ہے ہوا ہے اور ملازمین بیچارگی کی حالت میں در و دیوار کو تک رہے ہیں کہ انصاف کے لیے کس در سے رجوع کریں ۔