عام مریض کہاں جائیں؟

498

کورونا کے نام پر خوف و دہشت کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے لوگ کورونا سے مریں یا محفوظ رہیں ، دیگر وجوہات کی بناء پر ضرور موت کا شکار ہورہے ہیں کہ اب انہیں ڈاکٹروں نے دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔ آج ہی اطلاع ملی ہے کہ ایک خاتون محض اس لیے انتقال کرگئیں کہ دو روز پیشتر ان کی دل کی سرجری ہونا تھی جو کورونا کی وجہ سے نہیں ہوسکی اور وہ دل کے مرض کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگئیں ۔ چھوٹے اسپتالوں میں تو بیرونی مریضوں کو علاج کی سہولت ہی بند کردی گئی ہے جس کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں اور بڑے نجی اسپتالوں میں مریضوں کا ازدحام جمع ہونے لگا ہے ۔ ان اسپتالوں میں بھی اب ڈاکٹروں کی کئی کئی ماہ تک کی تاریخ دستیاب نہیں ہے ۔ ہنگامی صورتحال میں کسی بھی ایمرجنسی میں مریض کو لے کر جائیںتو ڈرکے مارے کوئی ڈاکٹر مریض کو ہاتھ نہیں لگاتا کہ پہلے اس کا کورونا کا ٹیسٹ ہوگا اور منفی آنے کے بعد مریض کا علاج کیا جائے گا ۔ یہ بات تو عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر کسی شہری کو دل کا دورہ پڑا ہے یا اس کا بلڈ پریشر اچانک بڑھ گیا ہے تو اس کو فوری طبی امداد کی کتنی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے میں وقت کی کتنی اہمیت ہوتی ہے ۔ ایسے میں کورونا کے ٹیسٹ میں اگر کئی گھنٹے ضایع کردیے جائیں تو مریض کے بچنے کے امکانات انتہائی کم رہ جاتے ہیں ۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود حکومت اور انتظامیہ یہ باتیںسمجھنے کو تیار ہی نہیں ہے ۔ ان کی پاس بس ایک ہی رٹ ہے اور وہ ہے کورونا ۔ اس زمینی حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ کورونا کی سندھ میں وہ شدت نہیں ہے ، سندھ میں اور خصوصی طور پر کراچی کے کیے جانے والے اقدامات کی توجیہ سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔ سندھ حکومت کے ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ الزامات درست معلوم ہوتے ہیں کہ یہ سارا کھیل اربوں روپے کے خصوصی فنڈز کو ہڑپ کرنے کے لیے رچایا جارہا ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو تمام شہریوں کی جان بچانے کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک ضعیف مریض شوگر اور دیگر امراض کی وجہ سے بھی انتقال کرجائے تو اسپتالوں کے ڈاکٹر اسے کورونا کا ڈیتھ سرٹیفکٹ جاری کرنے پر بضد ہوتے ہیں اور اگر گھر والے انکار کریں تو بذریعہ پولیس پورے گھر والوں کو پکڑ کر آئسولیشن وارڈ میں داخل کردیا جاتا ہے ۔ یہ کورونا سے بچاؤ نہیں بلکہ دہشت گردی ہے ۔ اس وقت کراچی کی آٹھ یونین کونسلوں کا مکمل اور گیارہ یونین کونسلوں کا جزوی طور پر لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے اور انہیں ریڈ اسپاٹ قرار دیا گیا ہے ۔ ان علاقوں میں کتنے مریض ہیں ، سرکار یہ نہیں بتاتی ۔ عملی طور پر ان علاقوں کا حال بھی وہی ہے جو دیگر علاقوں کا ۔ بس فرق یہ ہے کہ اہم سڑکیں بند کردی گئی ہیں اور لوگوں کو گھوم پھر کر اپنے گھروں کو آنا اور جانا پڑ رہا ہے ۔ ان علاقوں میں بھی کریانے اور دودھ دہی وسبزی کی دکانیں کھلی ہیں اور اسی طرح آمدو رفت کی اجازت ہے ، جس طرح دیگر علاقوں میں ۔ بس ان علاقوں کو سیل کرنے کی خبروں سے خوف ضرور بڑھ گیا ہے۔ اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ سندھ حکومت کسی کے اشارے پر خوف کا کھیل کھیلنے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو حکومت کو اور خصوصی طور پر سید مراد علی شاہ کو معاملات کی وضاحت کرنی چاہیے ۔ اصولی طور پر حکومت کی نگاہ میں ہر شہری کی جان یکساں اہمیت کی حامل ہے مگر اس وقت کیے جانے والے اقدامات سے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے سرکار کو صرف اور صرف نمبر گیم سے دلچسپی ہے ۔ کورونا کی وجہ سے جتنی زیادہ اموات ہوں گی ، اتنا ہی حکومت اپنے ہدف کے قریب ہوگی ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اتنے اہم مسئلے کی طرف کوئی سیاسی و سماجی تنظیم بھی توجہ نہیں دلا رہی۔سندھ حکومت کی طرف سے خوف و ہراس پھیلانے کا اتنا اہتمام کیا گیا ہے کہ جو لیبارٹریاں اور چھوٹے نجی اسپتال اس خراب صورتحال میں کام کررہے ہیں ، ان پر سرکار نے چھاپے مارنے شروع کردیے ہیں ۔ عام دنوں میں تو سارے سرکاری ادارے سوتے رہتے ہیں اور کہیں پر معیارکی کوئی بات نہیں کی جاتی ہے ۔ ہنگامی صورتحال میں یہ کون سا وقت ہے کہ اس طرح کے چھاپے مار کر وہ ادارے بھی سر بہ مہر کردیے جائیں یا ان پر بھاری جرمانے عاید کیے جائیں جو اس وقت خدمات مہیا کررہے ہیں ۔ اسی طرح ایک عا م شہری کسی ہنگامی صورتحال میں اسپتال تک جانے کی سہولت نہیں رکھتا کہ پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی ہے ۔ ایسے میں چند فیصد رکشا ڈرائیور روڈ پر ہوتے ہیں جو ایسے لوگوں کے لیے غنیمت ہیں ۔ اب کسی نادیدہ اشارے پر ٹریفک پولیس نے ان رکشوں کو عتاب کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے ۔ کاغذات پورے نہ ہونے کا بہانہ بنا کر رکشے تھانوں میں بند کیے جارہے ہیں اور ڈرائیوروں پر بھاری جرمانہ عاید کیا جارہا ہے ۔ جگہ جگہ سڑکیں بلاک کردی گئی ہیں ، ایسے میں شہری دوسری کھلی سڑک پر سفر جاری رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں تو ان پر رانگ سائیڈ کے جرمانے کیے جارہے ہیں اور انتہائی فخر سے یہ اعداد و شمار میڈیا کے ذریعے مشتہر بھی کیے جارہے ہیں ۔ مذکورہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے سندھ حکومت اور اس کے سربراہ سید مراد علی شاہ سے سوال تو بنتا ہے کہ وہ آخر چاہتے کیا ہیں ۔ کیا ان کے اہداف میں سندھ کے عوام خصوصا کراچی کے شہریوں سے کوئی انتقام لینا شامل ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو فوری طور پر ایسے تمام احکامات کو منسوخ کریں جو عوام کے لیے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں اور انتظامیہ میں شامل ایسے افراد کے خلاف سخت تادیبی کارروائی بھی کی جائے ۔