جب بھی بحران آیا‘ میڈیا کے پاس خبر نہیں بلکہ افواہیں ہی رہیں‘ ہر کوئی اپنا راگ الاپتا ہے‘ لیکن ڈھونڈھنے والوں کو خدا مل ہی جاتا ہے‘ بحران تو آج کل بھی ہے‘ ہر طرف کورونا‘ کورونا کا شور ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ خبر نہیں ہے‘ خبر بھی ہے‘ خبر یہ ہے کہ وہ لیٹ گیا ہے‘ اس کی بس ہوگئی ہے‘ بیس سال پہلے اس نے نواز شریف کے ساتھ جھگڑا کیا‘ کئی ہفتوں تک تصادم کی بساط بچھی رہی‘ معاملہ عدالت عظمیٰ تک جاپہنچا‘ عدلیہ نے شنوائی کی‘ ہاں مگر محترم قاضی حسین احمد نے بھی ان کا ہاتھ پکڑا تھا‘ پھر کہیں جاکر معاملات درست ہوئے‘ دل میں ایک گمان جو پال رکھا ہے کہ ہم ہی حکومت بناتے ہیں‘ اور گراتے ہیں‘ پانچ دس سال کے وقفے کے بعد آصف علی زرداری آگئے‘ پھر وہی جھگڑا‘ پورے پانچ سال جھگڑا رہا‘ نشیب و فراز بھی دیکھے‘ جھگڑا اس وقت عروج پر پہنچا جب ملک میں کیبل آپریٹرز نے ہڑتال کردی اور کرکٹ عالمی کپ میں پاک بھارت میچ ایک نہیں کسی بھی نجی چینل کے لیے دکھانا ممکن نہیں رہا تو سارا بزنس پی ٹی وی لے اُڑا‘ یوسف بیگ مرزا اس سارے قصے کے گواہ ہیں‘ انہیں علم ہوگا کہ اس میچ کی کوریج کے لیے اس وقت پی ٹی وی کو کتنا بزنس ملا تھا‘ اب پھر جھگڑا ہے مگر اس بار دوسرا فریق‘ ڈینگی مچھر کی طرح نظر آرہا ہے اور نہ کورونا وائرس کی طرح غیر مرئی حملہ آور ہے‘ سب کچھ علم میں ہے‘ اور دنوں فریق جانتے ہیں‘ اور نتائج سے بھی واقف ہیں‘ مگر پہلا نتیجہ توآچکا‘ اب ’’تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں والی بات نہیں رہی‘‘ اس بحران میں ایک خبر نے جنم لے لیا ہے‘ خبر تو ایک سطر کی بھی ہوتی ہے‘ بالکل ایک کی سطر‘ بس یہی خبر ہے کہ وہ لیٹ گئے ہیں۔ اب تو تلخ نوائی کم ہوچکی‘ زبان بھی شیریں ہوگئی ہے۔ تعریف کے لیے الفاظ ڈھونڈنے نہیں پڑتے‘ سامنے ہی ہیں‘ پہلے بھی یہی الفاظ سامنے تھے مگر استعمال نہیں کیے جاتے تھے اب تو حکومت میں نہ جانے کہاں سے خوبیاں آگئی ہیں‘ تلاش کیے بغیر ہی ان کا علم بھی ہوگیا ہے‘ یہ تو بڑی خوبیوں والی حکومت ہے‘ یہاں تک کہا جاتا ہے‘وزیراعظم خدا کا واسطہ دے کر جس دردمندی کے ساتھ پاکستانیوں سے اپیل کر رہے ہیں‘ ایسا تو کسی عالمی رہنماء نے بھی نہیں کیا‘ لہٰذا قوم کو ان کی آوا زپر توجہ دینی چاہیے۔
اب ایک نیا مرحلہ ہے جس میں کچھ عرصے کے لیے لفظ نااہل حکومت‘ غائب ہوجائے گا‘ لکھا جائے گا اور لکھنے کی اجازت ہوگی‘ وجہ معاشی مفاد ہے‘ یہی معاشی مفاد ممولے کو شہباز سے لڑاتا رہا اور اب یہی حکمت عملی قرار پایا ہے‘ حکومت لاک ڈائون کرے تو بھی ٹھیک‘ نہ کرے تو بھی ٹھیک‘ نرمی لانے کا سوچے تو اس سے اچھا کوئی فیصلہ نہیں ہوگا‘ اب طے کرلیا گیا ہے کہ ترسیلاتِ زر میں تعطل کی صورتحال قابل برداشت نہیں رہی اس لیے مسائل سمیٹے جائیں اور تنقید کا خیمہ بھی اکھاڑ لیا جائے، پیش قدمی کی تدابیر کی جارہی ہیں اور اقدامات سے اعتماد سازی بڑھائی جانے لگی ہے تاکہ حصولِ زر کا موقع مل سکے فیصلہ اس لیے ہوا کہ معاشی انجماد جھگڑے کا نتیجہ تھا‘ جس سے کچھ حاصل نہیں ہوا بلکہ بنا بنایا بھرم ٹوٹ گیا‘ جی ہاں ایک کا بھرم نہیں ٹوٹا‘ بلکہ سب کا ہی بھرم توڑ دیا ہے‘ حضور کبھی اس بارے میں ذرا سوچیے گا ضرور‘ اگر یہی حقائق ہیں تو پھر اسے کیا نام دیا جائے… خودی یا خود کشی… جب سب ہی سمجھا رہے تھے کہ صحافت کے پہیے کو زنگ آلود ہونے سے بچایا جائے تو اس وقت کہا گیا کہ ہم اپنا مقدمہ خود لڑیں گے‘ یہ بھول گئے کہ ایک اکیلا‘ دو گیارہ‘ اب کیا ہوگا؟ اب سب کا لاک ڈائون ہوگا…
۱۹۹۷ کی بات ہے‘ عدالت عظمیٰ پر حملہ ہوا تھا‘ حکومت نواز شریف کی تھی‘ اس بحران میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ اپنے منصب سے الگ ہونے پر مجبور کردیے گئے‘ لیکن ڈیڑھ سال کے بعد نواز شریف بھی اقتدار سے الگ ہوئے اور جلاوطن کر دیے گئے‘ طارق عزیز کا نام بھی حملہ آوروں میں شامل تھا‘ انہیں تو بعد میں سزا بھی ہوئی‘ جب توہین عدالت کے مقدمہ کی سماعت ہورہی تھی تو علم تھا کہ فیصلہ کیا آسکتا ہے‘ سماعت کے بعد طارق عزیز کہنے لگے چلو یار میرے ساتھ‘ ہاتھ پکڑا اور گاڑی بٹھایا اسلام آباد کلب لے گئے‘ عدالت عظمیٰ سے اسلام آباد کلب تک یہی گنگناتے رہے کہ ’’تانگہ آگیا کچری تو خالی تے سجناں نوں قید بول گئی‘‘ وہ ۱۹۹۷ کی بات تھی‘ آج۲۰۲۰ ہے‘ افغانستان میں ایک سو طالبان قیدی رہا ہوئے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں بھی ایک سو تو نہ سہی کوئی ایک قیدی رہا ہوجائے‘ اللہ کرے ایسا ہی ہو‘ کہ ہر کسی کے لیے مشکل اور آزمائش سے باہر آنے کی دعا کرنی چاہیے۔