لاک ڈائون: عوام حکومتی ریلیف کے منتظر

392

محمد اکرم خالد
افسوس کے اس آفت کی گھڑی میں بھی ہمیں سنجیدہ سیاست دکھائی نہیں دے رہی، بدقسمتی سے ہر دور میں دیکھا گیا ہے کہ عوامی مسائل اور عوام کی لاشوں پر سیاست چمکانا ارباب اختیار کی کمزوری رہی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے عالمی رہنمائوں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہان سے اپیل کی ہے کہ وہ کورونا سے نمٹنے کے لیے ترقی پزیر ممالک کی مدد کریں انہیں قرضوں میں ریلیف فراہم کیا جائے کورونا کے ساتھ ساتھ لوگوں کے بھوک کی وجہ سے مرنے کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
یقینا وزیر اعظم نے درست فرمایا خاص کر پاکستان کی معیشت کو دیکھتے ہوئے خان صاحب نے اپنے خدشات کی درست نشاندہی کی ہے۔ لیکن محترم وزیر اعظم یہ خدشہ نہیں بلکہ ایسا ہونا شروع ہوگیا ہے گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے اورنگی ٹائون میں ایک نوجوان نے دہاڑی نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کرنے کی کوشش کی مگر بر وقت طبی امداد کی وجہ سے اس کو بچا لیا گیا۔ کراچی سمیت ملک بھر میں لوگ جن میں سفید پوش افراد بھی شامل ہیں اس وقت سخت مشکلات کا شکار ہیں کیوں کہ حکومت کی تمام تر توجہ مستحق دہاڑی پیشہ افراد کی جانب مرکوز ہے جو ایک اچھی بات ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نہ ہی وفاق اور نہ ہی صوبائی حکومتیں مزدوروں کو ریلیف فراہم کر سکی ہیں اور نہ ہی مڈل کلاس سفید پوش افراد نہ ہی چھوٹے کاروباری حضرات کو کوئی ریلیف فراہم ہوسکا ہے۔ یقینا عوام کو کورونا سے بچانے کے لیے گھروں میں محصور کرنا ایک اچھی حکمت عملی ہوسکتی ہے مگر کیا عوام کو ریلیف فراہم کیے بغیر گھروں میں قید کرنا مناسب ہوگا۔
بلاول زرداری کا یہ کہنا کہ اس وقت ہمیں انسان کو زندہ رکھنا ہے معیشت کو ہم بعد میں زندہ کر لیں گے بالکل درست فرمایا۔ مگر کوئی ان سے یہ سوال کر سکتا ہے کہ آٹھ ارب کا راشن تقسیم کرنے کا جو بے بنیاد دعویٰ سندھ حکومت کی جانب سے کیا جارہا ہے کیا وہ درست ہے۔ مختلف علاقوں کی یو سی کو بغیر ریلیف کے سیل کرنا کیا درست ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ میں رجسٹراڈ افراد کے علاوہ کون سے مستحق افراد ہیں جن کو سندھ حکومت نے ریلیف فراہم کیا ہے۔ صرف اپنے انتخابی حلقوں کو وہ بھی اُن افراد کو جو پیپلزپارٹی کا ووٹر ہے ریلیف فراہم کرنا کیا درست ہے۔ چالیس سال میں سیاستدانوں نے اس ملک کی معیشت کو صرف نقصان پہنچایا ہے۔ اب تو سیاستدانوں کو مزید موقع مل گیا ہے کہ وہ کورونا وائرس کی آڑ میں معیشت کی تباہی کا راگ الاپ کر اپنے اقتدار کی مدت کو باآسانی پورا کر سکیں گے۔ اس وبا کے خاتمے کے بعد ہر سیاستدان معیشت کی تباہی کا ذمے دار کورونا کو ٹھیرائے گا اگلے کئی سال ہم سیاست میں کورونا وائرس کا رونا دیکھیں گے۔
سب سے بڑی بد بختی تو ہماری یہ ہے کہ ہم نے اللہ کے گھروں کو بند کر کے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ لیا ہے دوا بھی اُس وقت موثر ہوتی ہے جب اللہ کی جانب سے اس میں شفاء ہو ۲۴ گھنٹوں میں پانچ نمازیں باجماعت صرف ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں ادا کی جاتی ہیں جس میں کوئی خاص ہجوم نہیں ہوتا مگر اللہ کے گھر کو کورونا کے نام پر بند کر دینا کہاں کی عقل مندی ہے مسلمان کا عظیم ہتھیار اس کی عبادت گاہیں ہوتی ہیں ایسے وقت میں ان کو تالے لگا دینا ہماری سب سے بڑی ناکامی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علماء کرام اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے مساجد کو ۲۴ گھنٹے عبادت کے لیے کھولنے پر زور دیتے ان مساجد سے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی جاتی اس آفت کے خاتمے پر اللہ کو راضی کیا جاتا صبح شام مساجد سے کلام پاک کی تلاوت کی جاتی مگر افسوس اس سمت پر نہ مذہبی جماعتیں نہ ہی علماء کرام اپنا کردار ادا کرسکیں ہیں لوگوں کو گھروں میں قید کر کے ان کو انٹر نیٹ اور ٹی وی پروگراموں کے سامنے بیٹھا دیا گیا ہے جو اللہ کی ناراضی کا مزید سبب بن رہا ہے۔
مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا ایمان ہے کہ جب تک کسی بھی کام میں اللہ کی خوشنودی شامل نہیں ہوگی ہم کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ اگر کورونا سے نجات کا ذریعے لاک ڈائون ہی ہے تو پھر پورے پاکستان کو لاک ڈائون ہونا چاہیے بلکہ کرفیو لگا کر اس وبا سے لڑنا چاہیے مگر اس سے پہلے حکومت اس وقت میں مستحق افراد کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس سفید پوش چھوٹے کاروباری حضرات کو حقیقی ریلیف فراہم کرے جو نظر آئے۔ سندھ حکومت اندھرے میں تیر نہ چلائے، آٹھ ارب کا راشن کن اندھری گلیوں میں تقسیم کیا گیا اس کی تحقیقات کی جائے، یہاں اب یہ بات یاد رکھی جائے کہ ۲۲ دن سے زائدکا لاک ڈائون مستحق اور مڈل کلاس کے فرق کا خاتمہ کر چکا ہے اس وقت تمام تر طبقے حکومتی ریلیف کے منتظر ہیں۔ ہم ارباب اختیار اور علماء کرام سے اپیل کریں گے کہ ر مضان المبارک کی آمد ہے اس مبارک بابرکت ماہ میں مساجد کو کسی صورت بند نہ کیا جائے بلکہ ایسے انتظامات کیے جائیں کہ لوگ اللہ کے گھر کو اپنے لیے محفوظ سمجھیں اپنے گناہوں کی معافیاں مانگ کر اس وبا سے نجات حاصل کر سکیں یاد رکھیں مسلمان کا اصل ہتھیار اس کی عبادت گاہیں ہیں اگر ایسے وقت میں ان کو بند کر دیا گیا تو شاید ہم اللہ کی ناراضی کا مزید سبب بن سکتے ہیں۔