’’کورونا‘‘ دنیا کشمیر ہو گئی

399

غازی سہیل خان سرینگر کشمیر
’’کورونا وائرس‘‘ نے دنیا میں قہر برپا کر دیا ہے۔ طبی نظام بُری طرح سے ناکام ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا کے طاقت ور ممالک میں وینٹی لیٹرز اور آئی سی یوز کی کمی نے دنیا کو پریشان کر دیا ہے۔ جن ممالک کے پاس دنیا کو ختم کر دینے والے مہلک ہتھیار موجود ہیں اُن کو معمولی ویکسین اور دوائی کے لیے آج دنیا کے سامنے گڑگڑانا بھی ایک عبرتناک معاملہ بن چکا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے سامراجوں کی چودھراہٹ اب کسی کام کی نہیں۔ آئے روز ’’وائرس‘‘ سے لوگوں کے متاثر ہونے کی تعداد نہ صرف بڑھ رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اموات کی شرح میں بھی ہوش رُبا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آج حال یہ ہے کہ ساری دنیا جیل خانے میں تبدیل ہو گئی ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اب دنیا کشمیر ہو گئی ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی عالمی طاقتیں بے بس ولاچار ہو گئیں ہیں۔ دنیا میں بڑی بڑی معیشتوں کا دم بھرنے والے ممالک کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔ بم و بارود کے خزانوں کے مالک اس وبائی بیماری کے سامنے عملاً سرنگوں ہو چکے ہیں۔ عراق اور افغانستان پر ہزاروں ٹن بم و بارود برسا کر انسانیت کو فنا کے گھاٹ اُتارنے والا امریکا آج اپنے آپ فنا ہونے جا رہا ہے۔ دنیا آج حقیقت میں ’’النفسی النفسی‘‘ کے عالم میں ہے، ہر ایک کو اپنی ہی جان بچانے کی پڑی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’کورونا‘‘ نے عالمی طاقتوں کو ’’کلین بولڈ‘‘ کر کے رکھ دیا ہے۔ دنیا میں تا دم تحریر اس وبائی بیماری سے مرنے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے، دس لاکھ سے زائد لوگ اس کی زد میں آچکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ موت اور حیات کی جنگ لڑرہے ہیں۔ عوام زندگی کی بنیادی ضروریات و سہولت کے لیے ترس رہے ہیں۔ یہ تو سماجی تنظیموں اور اداروں کی مہربانیاں ہیں جو وہ اپنی زندگی کو خطروں میں ڈال کر انسانیت کو بچانے کے لیے ہر دم فرنٹ لائن پہ رہتے ہیں۔
ابھی تک اس بیماری نے اُن ہی ممالک کو زیادہ اپنی لپیٹ میں لیا جہاں کا طبی نظام باقی دنیا سے بہترین مانا جاتا ہے امریکا جس نے ساری دنیا میں اپنی چودھراہٹ قائم کی ہوئی ہے آج ایسا لگ رہا ہے کہ امریکا کی ناک میں لنگڑا مچھر گھس گیا ہے اور بھارت جس کا وزیر اعظم 56انچ کا سینہ ٹھونک کر کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہا ہے کے عوام اب بھوک کا شکار ہو کر دنیا کے لیے عبرت کا نشان بننے جا رہی ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا کو اس طرح کی وبائی بیماری کے پھیلنے کی خبر نہ تھی بلکہ وقتاً فوقتاً دنیا کے سائنس دان وبائی امراض سے دنیا کو آگاہ کرتے رہتے تھے جس کی مثال پاکستان کے ایک معروف صحافی نے اپنے ایک مضمون میں بھی دی ہے، ان کا کہنا ہے:
’’ایک امریکی جریدے ’’کلنیکل مائیکرو بائیولوجی ریویو‘‘ کے 11؍کتوبر 2002ء کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مضمون میں 13سال قبل پانچ سائنسدانوں نے دنیا کو کورونا وائرس کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ یہ جریدہ امریکن سوسائٹی فار مائیکرو بائیولوجی کے زیر اہتمام شائع ہوتا ہے۔ آگے لکھتے ہیں کہ کچھ سال کے بعد امریکن تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن نے 2012ء میں ایک رپورٹ شائع کی اور بتایا کہ مستقبل میں امریکا کے لیے بڑا خطرہ دہشت گردی نہیں بلکہ ایک عالمی وبا بنے گی جو امریکی معاشرے کے پورے طرز زندگی کو بدل کر رکھ دے گی، لہٰذا اس کی طرف توجہ کریں‘‘۔
لیکن اس کے باوجود امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک نے انسانیت کے بچائو کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔ اپنی دولت مہلک ہتھیاروں کے ذخیرے کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی فروخت کرتا رہا بلکہ دنیا میں حکمرانوں کی نا اہلی اب تاریخ کا ایک بد ترین حصہ بنتی جا رہی ہے۔ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف طرح طرح کی تنظیمیں اور قوانیں بنا کر دولت کے انبار خرچ کر دیے گئے لیکن جس سے انسانوں کی جانیں بچ سکتی تھیں، جس سے انسانیت کو آرام مل سکتا تھا، اس کی جانب کوئی سنجیدگی ظاہر نہیں کی گئی۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ GDP کا حصہ ہتھیاروں پر ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا رپورٹ کے متعلق امریکی سائنس دانوں نے صدر ٹرمپ سے گزارش کی کہ آپ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر سالانہ ایک سو ارب ڈالر خرچ کر رہے ہیں، ہمیں عالمی وبا کا توڑ تلاش کرنے کے لیے سالانہ صرف ایک ارب ڈالر دیا جا رہا ہے بلکہ ہمیں صرف ایک ارب ڈالر مزید دے دیں تاکہ صرف امریکا ہی کو نہیں پوری دنیا کو اس نئی وبا سے محفوظ رکھ سکیں۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اس درخواست کو مسترد کرتے رہے۔ اسی کا سبب ہے کہ آج امریکا کے حالات قابل رحم بن چکے ہیں اور تادم تحریر امریکا میں 25ہزار سے زائد اموات واقع ہوئی ہیں، بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وائرس کے سبب امریکا کی معیشت کو نہ صرف شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہے بلکہ اس کا سرمایہ دارانہ نظام تباہ ہوجائے گا۔ جس کا سب سے بڑا فائدہ چین کو ملنے والا ہے۔ پاکستان کے ایک معروف کالم نگارو محقق شاہ نواز فاروقی کا ایک ویڈیو پیغام گزشتہ روز نظروں سے گزرا جس میں وہ پال کاموڈی (Paul Kommedy) کی اٹھارویں صدی میں لکھی گئی کتاب “the Rise and fall of the great powers” کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پال کاموڈی نے اپنے کتاب میں بتایا ہے کہ ’’دنیا کی چار بڑی طاقتیں یعنی خلافت عثمانیہ، امریکا، برطانیہ اور سویت یونین اپنی معاشی کمزوریوں کی وجہ سے زوال کا شکار ہوئی ہیں۔ مثال دے کر سمجھاتے ہوئے کہا کہ ان طاقتوں کے جنگی اخراجات ان کی آمدنی سے بڑھ گئے تھے۔ جب کسی ملک کے اخراجات آمدنی سے زیادہ ہو جائیں تو وہ زوال کاشکار ہو جاتا ہے اس لیے معاشیات انسانی زندگی کی بقا کے لیے ایک اہم اور فیصلہ کُن عنصر کے طور شامل ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی ملک کا آمدنی سے زیادہ خرچ کرنا عام لوگوں کے لیے کتنا بھیانک ہوتا ہے۔ دنیا میں امریکا، اٹلی جیسے بہترین طبی نظام والے ممالک کا جب ہم آج حال دیکھتے ہیں تو برصغیر میں بسنے والے لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جب ہم برصغیر میں ہندوستان کی بات کرتے ہیں تو اس کا نمبر دنیا کے شعبہ صحت میں 142 پر ہے دوسری اور 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان ہتھیار درآمد کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک اور بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں کا قافیہ ٔ حیات تنگ کرنے والاپہلا ملک کا اعزاز بھی حاصل کر چُکا ہے۔ لیکن ایک اور پہلو بھی ہے جو انتہائی تشویش ناک رخ اختیار کر جاتا ہے کہ جب ہمیں 2018ء میں global burden of diease study جو Medical journal”THE LANCET” میں 23مئی 2018 میں شائع ہوئی، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کا شعبہ طب بنگلا دیش، سری لنکا اور بھوٹان سے بھی پیچھے ہے تاہم پاکستان، نیپال اور افغانستان سے اچھا ہے۔ بلکہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت کا شعبہ صحت غریب ترین افریقی ممالک جن میں سوڈان، نمیبیا، اور یمن سے بھی گیا گُزرا ہے‘‘۔ جہاں ایک طرف عالمی تنظیم صحت نے دنیا کو ہدایات جاری کی ہیں کہ ہرملک اپنی GDPکا 4-5فی صد شعبہ صحت پر خرچ کرے، وہیں ہندوستان آج محض 1.4فی صد ہی خرچ کررہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پورے ہندوستان میں سرکاری اسپتالوں میں 7,13,986 بیڈ ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ 0.55 بیڈ ایک ہزار کی آبادی کے لیے دستیاب ہیں۔ اب اس وبا کے سبب آج ہندوستان میں 5سے 10فی صد تک کورونا کا شکار ہوئے مریضوں کو وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہے۔ 24مارچ کو ایک امریکی تحقیقی ادارے نے کہا ہے کہ ہندوستان میں اس بیماری سے لڑنے کے لیے آئی سی یوز اور وینٹی لیٹرز کی کمی ہے۔ ایک اور تحقیقی ادارے نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ ہندوستان کو دس لاکھ سے زائد وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑ سکتی ہے اورآج ہندوستان کے پاس چالیس ہزار کے قریب ہی وینٹی لیٹرز ہیں۔ یعنی اگر اس وبائی بیماری پر قابو نہیں پایا گیا تو 15مئی تک 22 لاکھ افراد کورونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں اس کے لیے ایک لاکھ دس ہزار سے دو لاکھ بیس ہزار وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہے۔ آپ خود اندازہ کریں کہ جہاں ایک ہزار مریضوں کے لیے 0.55فی صد بیڈ دستیاب ہوں اور ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی کے لیے پچیس سے تیس ہزار وینٹی لیٹرز ہوں وہاں کا حال کیا ہوگا۔ جب ہم وادی کشمیر کی بات کرتے ہیں تو اس وقت ’’شعبہ صحت‘‘ کی ’’اپنی صحت‘‘ نازک حالات میں وینٹی لیٹر پر ہے۔ یہاںکی 70لاکھ کے قریب آبادی ہے اور یہاں محض 97وینٹی لیٹرز ہیں جن کی مدد سے کورونا وائرس سے متاثر افراد کا علاج کیا جارہا ہے۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بس اگر کسی چیز کی کمی نہیں تو وہ بم بارود اور فوج کی کمی نہیں ہے ایک چھوٹی سی وادی جس کی آبادی محض ستر لاکھ ہے میں سات لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں یعنی دس افراد کے لیے ایک فوجی۔ ایسی نازک صوتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ منافقانہ سیاست اور سماج کو بانٹنے کے بجائے دنیا کو چاہیے کہ عوام کے لیے بُنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے بم اور بارود انسانیت کو نہیں بچا سکتی کوئی اپنی فوجی طاقت کے نشے میں موت سے نہیں بچ سکتا۔ آج دنیا میں اس قہر کے سبب عوم بھوک کا شکار ہو رہے ہیں دنیا کی سب سے بڑی جمہورت میں عوام فاقہ کشی پہ مجبور ہیں، لوگوں کو معمولی ادویات کے لیے ترسنا اور تڑپنا پڑ رہا ہے ایسے میں ارباب حل و عقد کو چاہیے انسانیت کو بچانے کے لیے اقدامات کریں۔ ہمیں تو اس بات کا خوف ہے کہ کہیں تاریخ دانوں کو یہ نہ لکھنا پڑے کہ فلاں وقت میں فلاں قوم وینٹی لیٹرز اور آئی سی یوز کی کمی کے سبب دنیا سے فنا ہو گئی۔ اللہ ایسا نہ کرے۔ حکومتیں تو آنی جانی ہیں قوانین بھی بنیں اور ٹوٹیں گے آج ٹرمپ اور مودی دنیا میں اپنی خدائی کے دعوے کر رہے ہیں کل کوئی اور کرے گا لیکن خدارا کسی قوم کو اپنے مفادات کا شکار بنا کر تباہی کے گھاٹ نہ اُتارا جائے، بلکہ نیت خلوص سے بلا لحاظ مذہب و ملت انسانیت کو بچانے کے لیے سرمایہ کو صحیح طور سے خرچ کیا جائے۔