کورونا ہلا کتوں کا ذمے دار امریکا (پہلی قسط)

572

کورونا کی وجہ سے ویران دنیا پر نظر پڑتی ہے تو فیض صاحب بے طرح یاد آتے ہیںـ:
نیم شب چاند خود فراموشی
محفل ہست وبود ویراں ہے
پیکر التجا ہے خاموشی
بزم انجم فسردہ ساماں ہے
آبشارِ سکوت جاری ہے
چارسو بے خودی سی طاری ہے
زندگی جزوِ خواب ہے گویا
ساری دنیا سراب ہے گویا
سورہی ہے گھنے درختوں پر
چاندنی کی تھکی ہوئی آواز
کہکشاں نیم وا نگا ہوں سے
کہہ رہی ہے حدیث شوق نیاز
سازِ دل کے خموش تاروں سے
چھن رہا ہے خمار کیف آگیں
آرزو خواب تیرا روئے حسیں
ہم تو خیر خود فراموشی کی اس منزل پر ہیں گویا اپنے آپ کو بھول ہی بیٹھے ہیں لیکن یہ باقی دنیا کو کیا ہوا۔ امریکی صدور کے ایک اشارے پر دنیا ہل کررہ جاتی ہے، اسٹاک مارکیٹیں کرش ہو جاتی ہیں، کرنسی ریٹ سوئے فلک رواں ہوجاتے ہیں یا زمین چاٹنے لگ جاتے ہیں۔ ایک فون کال پر ملک امریکا کی گود میں ڈال دیا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی ایک ٹوئٹ پر ترکی لیرا 17فی صد گر جاتا ہے۔ ایک دھمکی پر بھارت مخصوص دوا کی برآمد پر سے پابندی اٹھا لیتا ہے۔ امریکی صدور کے ایک ایک لفظ پر دنیا کے کان لگے رہتے ہیں۔ ایک ایک جملے کی سوسو تعبیریں کی جاتی ہیں لیکن اس عالمی وبا کے بارے میں کہی گئی امریکی صدور کی تنبیہ پر کسی نے کان ہی نہیں دھرے۔ پندرہ برس پہلے امریکی صدر جارج بش نے کہا تھا ’’اس وقت ہمارے ملک میں اور دنیا میں کوئی وبا موجود نہیں ہے لیکن اگر ہم انتظار میں رہے تو ایسی وبا کو روکنے میں کافی دیر ہوچکی ہوگی ایک دن بہت سی جانیں ضائع ہوجائیں گی‘‘۔ پانچ سال پہلے صدر اوباما بھی یہی بات کررہے تھے کہ ’’ایک وقت ایسا آسکتا ہے جب ہمیں ایک ایسے مرض کا سامنا کرنا پڑے جو نہ صرف ہوا سے پھیلتا ہو بلکہ مہلک بھی ہو اس کا موثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ایک ایسے نظام کو لائحہ عمل میں لانا ہوگا جس سے نہ صرف اس ملک میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کو بروقت پہچان جائیں اور اس کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات اٹھا سکیں‘‘۔
سوال یہ ہے کہ ایک نہیں دو امریکی صدور کی اس واضح تنبیہہ اور الارمنگ کو سنجیدہ کیوں نہیں لیا گیا۔ پوری دنیا کو تو چھوڑیے خود امریکا نے کورونا سے نمٹنے کی تیاری کیوں نہیں کی۔ اس کے لیے ذرا ماضی میں جانا ہوگا۔ دوسری جنگ عظیم ایسے ختم کی گئی کہ امریکا نے جاپان کے خلاف ایٹم بم استعمال کیا۔ منٹوں میں لاکھوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ دنیا نے جنگوں کی ہلاکت خیزی کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ اس لیے امید تھی کہ اب جنگ حکومتوں کی ترجیح نہیں رہے گی لیکن دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو فوراً سرد جنگ شروع کردی گئی۔ ایک طرف سوویت یونین اور کمیونزم دوسری طرف امریکا، سرمایہ دارانہ نظام اور ناٹو۔ دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہوگئی۔ یہ جنگ امریکا اور روس سے باہر دیگر ممالک میں لڑی گئی تھی۔ دنیا میں نئے نئے تصادم اور شورشیں برپا کردی گئیں۔ ہر ملک کو زیادہ سے زیادہ جنگی طاقت کا حصول ہی زندہ رہنے کی واحد صورت نظر آنے لگا۔ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوگئی۔ ایک طرف امریکا تو دوسری طرف سوویت یونین دنیا کو اسلحہ سپلائی کرنے کے مرکز بن گئے۔ امریکا اور سوویت یونین کے لیے یہ بہت منافع بخش صورت حال تھی۔ 1916 میں پہلی عالمی جنگ کے دوران لینن کی کامریڈ انیسا آرمنڈ نے سوال کیا تھا کہ ’’یہ جنگیں کتنی خوفناک ہوتی ہیں‘‘ لینن نے پُراطمینان لہجے میں جواب دیا تھا ’’جنگ ہولناک حدتک منافع بخش بھی ہوتی‘‘۔
مارشل پلان، یورپ اور جاپان کی تعمیر نو سے امریکی سرمایہ داروں نے بے پناہ فائدہ حاصل کیا اور پھر اسلحہ سازی کی عظیم ترین امریکی صنعت۔ ایٹمی اسلحہ، ایٹم بم، میزائل، ایٹمی اسلحہ لے جانے والے کیرئر، جنگی جہاز، ہیلی کا پٹر، دنیا بھر میں اسلحے کی دوڑ شروع کرادی گئی۔ امریکا کے بعد سوویت یو نین، برطانیہ، فرانس، چین حتی کہ بھارت اور پاکستان نے بھی ایٹم بم بنالیا۔ امریکا اور ناٹو نے سوویت یونین کا اس طرح گھیرائو کیا کہ سوویت یونین کے پاس ایک طرف دس ہزار ایٹم بم تھے تو دوسری طرف آبادی کا بہت بڑا حصہ ڈبل روٹی کے حصول کے لیے قطاروں میں لگا ہوا تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب امریکا دنیا کی واحد سپرپاور تھا۔ کوئی اس کے مقابل نہیں تھا۔ امید تھی کہ اب دنیا سکون کا سانس لے گی۔ اسلحہ کی دوڑ ختم ہوگی لیکن امریکا نے چین کو نیا ہدف ڈکلیئر کردیا گیا۔ چین ایک سخت جان دشمن تھا۔ وہ اسلحہ کی دوڑ سے قابو میں آنے والانہیں تھا اس کی جان اس کی معاشی ترقی میں تھی جس کا انحصار تیل کی درآمد پر تھا۔ اس کے لیے مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کرنے پر توجہ دی گئی۔ پورے مشرق وسطیٰ کو آتش وآہن میں غرق کردیا گیا۔ اسلحہ کے انبار لگا دیے گئے۔
عراق اور ایران کی جنگ برپا کرائی گئی۔ عراق کو امریکا اور برطانیہ نے اسلحہ کی ترسیل کی تو ایران کو اسرائیل کے ذریعے امریکی اسلحہ فراہم کیا گیا۔ یہ جنگ ختم ہوئی تو weapons of mass destruction کے جھوٹ کا سہارا لے کر عراق کا ستیاناس کردیا گیا۔ شام میں مداخلت کئی گئی، لیبیا میں مداخلت کی گئی، یمن میں جنگ چھیڑ دی گئی۔ پورے مشرق وسطیٰ میں آگ لگادی گئی۔ پوری دنیا میں اسلحے کی وہ دوڑ شروع ہوئی کہ تمام ممالک کے بجٹ کا بڑا حصہ اسلحہ کی خریداری کے لیے وقف ہوگیا۔ امریکا کے گزشتہ سال کے فوجی اخراجات 950 ارب ڈالر تھے۔ چین نے تقریباً 240 ارب ڈالر جنگی سازو سامان اور اپنے دفاع پر خرچ کیے۔ صورتحال یہ ہے کہ دنیا میں جو کھربوں ڈالر کے اخراجات ہیں اس کا نصف امریکا اور چین کررہے ہیں۔ باقی نصف دنیا۔ وہ ممالک جنہیں تصادموں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ گزشتہ برس صرف ایک سال میں سعودی عرب نے 70ارب ڈالر خرچ کیے۔ تمام خلیجی ممالک کا مجموعی دفاعی بجٹ کم وبیش 120ارب ڈالر ہے۔ ایران کا 10ارب ڈالر۔ دنیا میں اسلحہ کی خریداری کا تیسرا بڑا ملک سعودی عرب ہے۔ چوتھے نمبر پر بھارت ہے جس کا دفاعی بجٹ 50ارب ڈالر سالانہ ہے۔ بھارت کو پاکستان کے ساتھ ساتھ چین سے محاذ آرائی کی راہ پر لگادیا گیا۔ برطانیہ چوتھے نمبر پر ہے، جاپان فرانس، جرمنی، سب ناٹو ممالک کسی کا دفاعی بجٹ 50ارب کسی کا 60ارب حتی کہ کینیڈا جیسا ملک بھی جس کا دنیا میں کسی سے کوئی جھگڑا ہی نہیں وہ بھی دفاع پر 23ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ ترکی کو بھی جگہ جگہ جنگوں میں شامل کردیا گیا۔ وہ بھی امریکا کے اسلحے کا بڑا خریدار ہے۔ پاکستان بھی تقریباً ساڑھے گیارہ ارب ڈالر جنگی سازوسامان پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔
(جاری ہے)