امریکا کی افغانستان میں شکست

570

جاوید اکبر انصاری
طالبان اور امریکی سامراجیوں کا حالیہ معاہدہ جہاد افغانستان کا ایک اہم موڑ ہے لیکن اس کو امریکی سامراج کی مکمل پسپائی کی طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے یہ بات ویت نام اور افغانستان میں امریکی سامراج حکمت عملی کے موازنے سے واقع ہوتی ہے۔ آج ویت نام امریکی سامراج کے قریب ترین حلیفوں میں شامل ہے اور امریکی کمپنیاں ویت نام کی معیشت پر چھائی ہوئی ہیں ویتنامی سرمایہ داری خوب پھل پھول رہی ہے۔ نکسن نے اپنی 1976 کی صدارتی امیدواری مہم میں ویت نام سے انخلا کا وعدہ کیا تھا اور اپنے صدارتی دور میں بڑی تگ ودو کے ساتھ شمالی ویت نام سے معاہدے کی جستجو کی تھی اور جنوری 1973 میں یہ معاہدہ ہوگیا اس کے دوسال بعد تک جنوبی ویت نام کی امریکی سامراجی پٹھو حکومت قائم رہی اور پورے عرصہ میں ویت نام میں جاری جنگ سے امریکی سامراج چشم پوشی کرتارہا۔ نکسن اور ٹرمپ دونوں معاہدوں کا اصل ہدف ویت نام اور افغانستان سے امریکی عسکری انخلا ہے اور اس جانی اور مالی نقصان کو کم کرنا ہے جو ان جنگوں میں امریکی سامراج کو برداشت کرنے پڑے ہیں۔ ویت نام کے مقابلہ میں افغانستان میں بہت کم امریکی سامراجی جہنم واصل کیے گئے۔ صرف 3500 اور زخمیوں اور ذہنی مریض فوجیوں کی تعداد بھی محتاط اندازوں کے مطابق ایک لاکھ سے تجاوز نہ کرسکی۔ انیس سالہ جنگ کے دورانیہ میں اوسطاً تخمینوں کے مطابق کسی سال بھی مالی نقصان امریکی قومی آمدنی (GDP) کے ایک فی صد سے زیادہ نہیں ہوا۔
امریکی سامراجی عسکری پسپائی اس قوم کی بزدلی اور کم ہمتی ہے اور اس کا یہ احساس کہ اس کی سامراجی برتری عسکری قوت پر نہیں سرمایہ دارانہ معاشی اور سیاسی گرفت کی توسیع پر مضمر ہے کی غماز ہے، لہٰذا حالیہ معاہدے سے امریکی سامراج جو قیمت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ عسکری پسپائی کے بدلے میں افغانستان کو عالمی سرمایہ دارانہ معاشی اور سیاسی سامراجی نظام میں جکڑ لے۔ اس لحاظ سے امریکی سامراجی پسپائی روس اور برطانیہ کے افغان انخلا 1942 اور 1989 سے مختلف ہے۔ برطانیہ اور روس نے انخلا کے بعد افغانستان کے سامراجی گھیراؤ کی کوشش نہیں کی تھی۔
افغانستان کو سرمایہ دارانہ سامراجی گرفت میں جکڑنے کے لیے حالیہ معاہدہ کی جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں وہ یہ ہیں: فی الحال امریکی سامراج افواج کی تعداد 12000 سے کم کرکے 8000 ہوجائی گی یہ واضح نہیں کہ امریکی فوج تنصیبات میں کتنی اور کب کمی کی جائے گی پینٹاگون اور سی آئی اے کے تخمینوں کے مطابق اتنے سامراجی فوجیوں کی تعداد کابل کو امریکی ہاتھوں میں رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
سامراجی عسکری افواج میں مزید کمی افغان مصالحت سے مشروط ہے نہ اس کا دورانیہ متعین ہے نہ یہ کہ یہ مسابقت کس سے اور کیسے عمل میں آئے گی۔ امریکی سامراج نے اپنی پٹھو حکومت سے 29فروری کو پٹھو سرکار کا ساتھ دے کر ایک الگ تعاونی معاہدہ پر دستخط کیے۔
طالبان نے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے عالمی سامراجی قوتوں کی عسکری مزاحمت کی حوصلہ افزائی نہ کریں گے اور اس نوعیت کی جدوجہد کو محدود کرنے کے لیے معاہدہ میں سی آئی اے اور امریکی سامراجی Special Operation Force کو جگہ اور سہولت فراہم کی گئی ہے لیکن 19 سالہ دورانیے میں طالبان نے پاکستان کے دبائو کے باوجود آج تک کسی ایک القاعدہ یا داعش کے کارکن کو امریکی سامراج کے حوالے نہیں کیا۔
جہاد افغانستان ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے امریکی سامراج کی جزوی پسپائی اس کی مکمل شکست کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے اور اس کی اور اس کے نظام کے غلبہ کی ابتدا افغانستان میں ایک نمائندہ جمہوری حکومت کے قیام کی تیاری سے ہوگا۔ جس میں طالبان بھی شریک ہوں گے اور غالباً ان کی شرکت سے ایک ایسی مخلوط حکومت قائم ہوگی جو دہریوں، امریکی پٹھوں، دیگر اسلامی گروہوں اور طالبان کے اعتدال پسند نمائندوں پر قائم ہوگی۔ چونکہ امریکی تخریب کار ادارہ (میڈیا اور این جی اوز) بڑے پیمانہ پر ان انتخابات کو سبوتاژ کریں گے لہٰذا یہ نئی نام نہاد اسلامی حکومت امریکی سامراج کی باجگزار ہوگی وہاں مختلف حیلوں بہانوں سے سود اور سٹہ کا کاروبار پوری معیشت کو اپنی گرفت میں لے لے گا جیسا ویت نام میں ہوا اور ویت نام کی طرح افغانستان بھی عن قریب سامراجی عالمی اداروں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک WTO اور FATF کی نگرانی قبول کرلے گا اور اس کے وزرا پوری دنیا میں سامراجیوں سے بھیک مانگتے پھریں گے۔
ہم اسلامی انقلابی ہیں طالبان نے جہاد افغانستان میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ہمیں پوری امید اور توقع ہے کہ وہ ان کو ضائع نہیں ہونے دیں گے اس جزوی فتح کو دائمی غلبہ میں تبدیل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدام ضروری ہیں۔
اتحاد اسلامی کا فروغ: peace process کو ان اسلامی گروہوں تک محدود رہنا چاہیے جنہوں نے کسی نہ کسی درجہ تک سامراجی استبداد کی مزاحمت کی ہے۔ دہریوں اور نام نہاد غیر جانبدار غداروں سے کسی قسم کی مصالحت اور مکالمہ کی ابتدا نہ کی جائے۔ مکالمہ اور مفاہمت کو شرع مطہرہ کے احکامات کی تنفیذ کا مقصد اور ذریعہ بنایا جائے، مکالمے کے ذریعے مخلصین دین کی ایسی اہل الرائے اشرافیہ کی نشاندہی کی جائے جو امارۃ اسلامیہ کی باگ دوڑ سنبھالنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ سرمایہ دارانہ ارتقائی اسکیموں کے اجرا کی بھرپور مخالفت کی جائے متحارب اسلامی گروہوں کو مصالحت کے دائرہ کار میں شریک کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے اور ان کے شبہات اور غلط فہمیوں کو دورکیا جائے۔
(جاری ہے)
جاوید اکبر انصاری
شیعہ سنی اتحاد: طالبان نے کبھی شیعوں کو عسکری ہدف نہیں بنایا اس کے باوجود یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ پہلی مارچ کو ایران کی اسلامی حکومت نے اس معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے پٹھو سامراجی حکومت میں اس کی شرکت کا مطالبہ کیا ہے۔ شیعہ سنی اتحاد مشرق وسطیٰ میں اسلامی غلبے کی کلیدی شرط ہے۔ افغانستان میں شیعہ گروہوں نے بھی سامراج سے مزاحمت کی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان میں شیعہ سنی اتحاد مستحکم ہوا اور افغان شیعہ حلقہ ایران کی اسلامی حکومت کو باور کرائیں کہ افغانستان میں امریکا کی سرپرستی میں قائم شدہ حکومت لازماً اسلامی ایران میں تخریب کاری اور دہشت گردی کا ذریعہ بنے گی۔
امارت اسلامیہ کا احیا: طالبان کے زیر اثر علاقوں میں امارت اسلامیہ قائم ہے اس کا مکمل سقوط کبھی بھی نہ ہوا۔ سامراجی جمہوری عمل کے ذریعہ اس امارتی نظام کی تسخیر کے خواہاں ہیں۔ اس کے لیے وہ جمہوری نظام کی اسلام کاری کا حربہ استعمال کریں گے جیسا کہ 2019 کے انتخابات سے ثابت ہے جمہوری نظام افغانستان میں بالکل ناکام ثابت ہوا ہے اور اس کی توضیح کا کوئی وعدہ حالیہ معاہدہ میں نہیں کیا گیا ہے اب اس جمہوری نظام کو قبر میں گاڑدینے کا وقت آگیا ہے۔
امارت اسلامیہ کی تحکیمی صلاحیت کی توسیع: اماراتی نظاماتی توجیح کی ضرورت طالبان کے زیر اثر علاقوں میں بھی ہے اور سامراجی تسلط کے علاقوں میں بھی طالبان کے زیر اثر علاقوں میں یہ تحکیمی نظام نامکمل ہے ان علاقوں میں ریاستی اور نیم ریاستی ادارہ اقتصادی سماجی اور خارجہ امور پر پورا کنٹرول نہیں رکھتے غیر سرمایہ دارانہ زر کا اجرا اور اسلامی تمویلی نظام کا قیام ابتدائی منازل میں ہے۔ قبائل کی معاشرتی زندگی میں دخول بھی واضح نہیں۔ غیر ممالک (بالخصوص ایران اور روس) سے مستقل بنیادوں پر تعلقات برقرار رکھنے کا انتظام نہیں کیا گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نامکمل ریاستی انتظامی نظام کو اسلامی غیر سرمایہ دارانہ خطوط پر توسیع دی جائے اور اس کے لیے طالبان کی صفوں سے باہر مخلصین دین سامراج مخالف گروہوں سے شرکت کار لازمی ہے۔
Peace Process سامراج تسلط کے علاقوں میں بھی اسلامی دخول کے وافر مواقع فراہم کرتا ہے۔ امریکی افواج کا 14مہینوں میں مکمل انخلا جس peace process کے اختتام سے مشروط ہے اس میں یہ واضح نہیں کیاگیا کہ طالبان اور امریکی پٹھوں کے مصالحت کے ذریعہ ایک مخلوط نظام قائم کیا جائے گا معاہدے کے اس ابہام سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ امریکی پٹھو حکومت کو اپنے زیر اثر علاقہ میں معاشرتی اور سیاسی طور پر تنہا کیا جائے افغانستان میں جمہوری عمل کوئی معنی نہیں رکھتا اور بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے رائے دہندگی نہ ہونے کے برابر ہے اشرف غنی کی صدارت کو عبداللہ عبداللہ تسلیم نہیں کرتا کرپشن اس قدر عام ہے کہ پچھلے صدارتی انتخابات کے نتائج کئی ماہ کے تعطل کے بعد مرتب ہوئے۔ حقیقت میں یہ ایک نہایت کمزور حکومت ہے جو سامراج کے سہارے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔
افغانستان میں جمہوری عمل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کیے بغیر اسلامی امارت کا قیام اور استحکام ناممکن ہے۔ سامراجی جمہوری عمل کے ذریعے بڑے پیمانے پر تخریب کاری کی اہلیت حاصل کرلیں گے۔ ان کے پٹھو امریکی فوجی تنصیبات کے فروغ اور سی آئی اے اور Special Operation Forces کے اطلاعاتی network کو پھیلانے کی وکالت کریں گے اور امریکی سامراجی امداد کے سہارے اسلامی معاشرت کو مجروح کریں گے سامراجی پٹھو حکومت کو تنہا کرنے کے لیے سامراجی مقبوضہ علاقہ میں اسلامی انقلابی صف بندی ناگزیر ہے۔
افغان سامراجی مقبوضہ علاقوں میں انقلابی عوامی تنظیم سازی مسجد کی سطح پر کی جاسکتی ہے اور اس تنظیم سازی کا مقصد مقامی سطح پر قبائل اور جرگوں سے اشتراک عمل کی بنیاد پر سامراجی انتظامیہ کو بے دخل کردینا ہو۔ چودہ مہینہ کے عرصہ میں پٹھو حکومت کا شیرازہ اتنا بکھر جائے کہ سامراجی اس کی پشت پناہی کو ایک لاحاصل عمل سمجھنے لگیں۔
امارت اسلامیہ کے خدوخال طے کرنے کے لیے یہ مشاورت تمام اسلامی گروہوں سے افغانستان میں کی جائے ناروے یا کسی اور ملک میں نہیں۔ یہ مشاورت فی الفور شروع کی جائے اور چودہ ماہ کے بعد سامراجی فوج کے مکمل اخراج کا مطالبہ کرے۔