کورونا ہلاکتوں کا ذمے دار امریکا (آخری قسط )

458

لینن نے ایک مرتبہ عالمی سیاست میں ’’آتشیں مواد‘‘ کے نام سے ایک مضمون تحریر کیا تھا آج عالمی سیاست میں آتشیں مواد اتنا موجود ہے بالشویک قائد نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ جہاں نظر دوڑائیں عدم استحکام شورش، بربادی اور آتشیں مواد، مہلک اسلحے کے پہاڑ۔ یہ اسلحہ کون سپلائی کررہا ہے۔ اکثریت کو امریکا۔ نہ صرف یہ کہ امریکا کے ملٹری انڈسٹریل کمپلکس کی بقا اور منافع اندوزی اسلحہ سازی اور اس کی فروخت سے وابستہ ہے بلکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا کی پوری معیشت ملٹری انڈسٹریل کمپلکس پر چل رہی ہے اور ان کا سیاسی نظام بھی یہی ملٹری کمپلکس چلاتا ہے۔ ہر امریکی صدر کے لیے لازم ہے کہ وہ اس ملٹری کمپلکس کو بہر صورت جاری وساری رکھے۔ صدر ٹرمپ نے اپنا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا اسی انڈسٹری کو توانائی پہنچانے کے لیے کیا تھا جس میں اسلحے کی خریداری کا انسانی تاریخ کا ایکبڑا معاہدہ کیا گیا تھا۔ سابق امریکی صدر آئزن ہاور نے 1958 میں کہا تھا کہ امریکا کوسب سے زیادہ خطرہ ملٹری انڈسٹریل کمپلکس کے غلبے سے لاحق ہے۔ آج پینٹا گون کی آرا، پالیسیوں اور اس ملٹری کمپلکس کو نظر انداز کرکے کوئی پالیسی ترتیب دینا کسی امریکی صدر کے لیے ممکن نہیں۔ اب آئیے اس سوال پر جس سے ہم نے آغاز کیا تھا کہ صدر بش نے پندرہ برس اور صدرباراک اوباما نے پانچ برس پہلے کورونا جیسی وبا کا ذکر کیا تھا اس کے باوجود دنیا اور امریکا نے اس وبا کا مقابلہ کرنے کی تیاری کیوں نہیں کی۔ اس کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام اور امریکا ہے۔ اس ابتدائیہ کے بعد ہم سرمایہ دارانہ نظام کو با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ شیکسپئر کے ڈرامے ہنری ششم میں گلو سیسٹر کہتا ہے۔
ہاں میں مسکرا سکتا ہوں
اور مسکراتے ہوئے قتل کرسکتا ہوں
اور دل دکھانے والے ہر وقعے کو خوش آمدید کہتا ہوں
اور ٹسووں سے اپنے گال بھگو لیتا ہوں
اور ہر موقع کی مناسبت سے اپنا چہرہ سجا لیتا ہوں
مسکرانا اور انسانیت کے غم میں گالوں پر ٹسوے بہانا سرمایہ دارانہ نظام کا جمہوری چہرہ ہے
جب کہ قتل کرنا، دل دکھانے والے واقعات جنم دینا اور موقع کی مناسبت سے چہرہ سجا لینا اس نظام کی اصل فطرت ہے۔ اس نظام نے دنیا کو مجبور کررکھا ہے کہ وہ جنگوں اور اسلحہ کی خریداری پر اپنا زیادہ سے زیادہ بجٹ خرچ کرے۔ بھارت کا شمار خوش حال ممالک میں ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کے بجٹ کا بڑا حصہ جنگی تیاریوں اور اسلحہ کی خریداری پر صرف ہوتا ہے اتنا کہ وہ دنیا میں اسلحہ کا چوتھا بڑا خریدار ہے اسی لیے بھارت دنیا کی سب سے بڑی غربت بھی ہے۔ بھارت کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان بھی اپنی اوقات سے زیادہ فوجی اخراجات خرچ کرنے پر مجبور ہے۔ معیشت کا بیڑہ غرق ہوجائے وہ فوجی اخراجات کم نہیں کرسکتا۔ معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے اسے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی ساہوکاروں کے پاس جا نا پڑتا ہے۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ان اداروں کی سود کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ اپنے عوام کی صحت، تعلیم اور دیگر ضروریات پر خرچ کرسکے۔ سرمایہ داریت پرائیوٹائزیشن جیسے حربوں سے ریاست کے آمدنی کے ذرائع پہلے ہی محدود کردیتی ہے۔ پاکستان ہی نہیں دنیا کے اکثر ممالک کو جنگی ساز وسامان کی خریداری اور عالمی سودی اداروں کو قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کے جال میں پھنسا دیا گیا ہے۔ ان کے پاس اپنے عوام کوکورونا سے بچانے کے لیے انتظام ہے نہ پیسہ۔ کورونا کی عالمی وبا سے بڑے پیمانوں پر ہلاکتوں کا ذمے دار سرمایہ دارانہ نظام اور اسے دنیا بھر میں نافذ کرنے کا علمبردار امریکا ہے۔ صدر بش ایک طرف دنیا کو عالمی وبا کے خطرے سے بچنے کے لیے اقدام اٹھانے کی وارننگ دے رہے تھے دوسری طرف یہ حال تھا کہ انہوں نے اپنے دور میں کوئی ڈیڑھ سو پروگراموں میں کٹوتی کا اعلان کیا تھا۔ یہ وہ پروگرام تھے جن میں کسی نہ کسی طرح عوام کا فائدہ تھا ان میں صحت، تعلیم، ماحولیات اور غربت کے خاتمے کے پروگرام شامل تھے۔ جب کہ فوجی اخراجات کو بڑھایا گیا۔ عوامی فلاحی پروگراموں کے خاتمے کے لیے ترکیب یہ کی گئی کہ سرمایہ داروں کا ٹیکس کم کردیا گیا جس سے بجٹ خسارہ بڑھا۔ اس بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے عوام کے فلاحی پروگراموں میں تخفیف کردی گئی۔ جس کا نتیجہ ہے کہ دنیا کے بیش تر ممالک کی طرح آج امریکا بھی کورونا کے مقابل بے بس اور سب سے زیادہ متاثر ہے۔ اٹلی، اسپین، برطانیہ، چین جرمنی اور ایران سے بھی زیادہ متاثر۔ امریکا میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 6لاکھ78ہزارسے زائد ہوچکی ہے جب کہ اموات دنیا بھر میں سب سے زیادہ35ہزار کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ معاشی کساد بازاری کے باعث 2کروڑ 20لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔ نیویارک کے اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور عملے کا کہنا ہے کہ ہم نے ایسا برا وقت نہیں دیکھا۔ اسپتالوں میں ضروی سازوسامان ناکافی ہے ایک نرس کا کہنا ہے کہ ہمیں ذاتی حفاظتی سامان بھی پورا نہیں مل رہا۔ اسپتال اب مزید مریضوں کو نہیں آنے دے رہے۔ تمام مریضوں کو اب خود ہی اس صورتحال سے نمٹنا ہے۔
کورونا کے بعد پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام پر اعتماد متزلزل ہوچکا ہے۔ انسانیت کو لاحق تمام امراض کی طرح وبا جیسے معاملے میں بھی اسلام مکمل رہنمائی فراہم کرتاہے۔ رسالت مآب سیدنا محمدعربیؐ کا ارشاد ہے ’’جب تم سن لو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیلی گئی ہے تو وہاں مت جائو لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہاں موجود ہو تو اس جگہ سے مت نکلو۔ بخاری‘‘۔ لوگوں پراز خود لازم ہے کہ وبا سے متاثرہ علاقے میں داخل نہ ہوں۔ ایسے علاقے میں موجود لوگوں پر بھی فرض ہے کہ وہ اس علاقے سے باہر نہ نکلیں تاکہ وبا کے پھیلانے کا باعث نہ بنیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر بھروسا رکھیں۔ حکومتوں پر لازم ہے کہ شہر کے صرف اس علاقے کو قرنطینہ کریں جہاں وبا کے مریض کا پتا چلے چا ہے وہ محلہ ہویا یونین کونسل۔ باقی علاقوں میں مسلمان مکمل احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنے فرائض کی تکمیل کریں جیساکہ حصول رزق، حصول علم اور مساجد میں باجماعت نماز۔ تاکہ معیشت کا پہیہ بھی چلتا رہے اور لوگ بھوک اور افلاس کا مقابلہ بھی کرسکیں۔ کورونا کی ویکسین آنے میں تقریباً ڈیڑھ سال لگے گا کیا ڈیڑھ سال تک شہروں اور ملکوں کو لاک ڈائون کیا جاسکتا ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے؟ سیکڑوں قسم کی ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے گا؟ محض خوف یا پھر اندھی تقلید کے تحت بنائی جانے والی پالیسیاں کامیاب نہیں ہوتیں۔ شریعت مسائل کو یک رخی انداز میں حل نہیںکرتی۔ ایک مسئلہ حل کرنے کے لیے دس مسائل پیدا نہیں کرتی۔ مکمل لاک ڈائون میں ناکامی کے بعد بالآخر دنیا کو اسی طرف آنا پڑ رہا ہے۔ چھوتی امراض کے بارے میں اسلام یہ تعلیم بھی کرتا ہے کہ ’’بیمار کو تندرست کے ساتھ مت رکھو (بخاری)‘‘۔ ریاست پر لازم ہے کہ وہ اسپتالوں اور آئسولیشن سینٹرز میں یا گھروں میںکورونا متاثرین کو مکمل طور پر الگ رکھنے کا بندوبست کرے۔ جو لوگ کورونا سے متاثر ہیں لیکن علامات ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے لاعلم ہیں ریاست پر لازم ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر ان کے ٹیسٹ کرے۔ اگر ابتدا سے ہی اسلامی تعلیمات کے مطابق اقدامات کیے جائیں اور فوراً ہی ان محلوں یا یونین کونسلوں کو قرنطینہ کیا جائے جہاں اس وبا کے آثار ظاہر ہوں تو پورے شہر یا ملک کو لاک ڈائون کرنے کی نوبت نہ آئے اور بدترین بھوک اور بے روزگاری کی وہ صورت حال بھی پیدا نہ ہو جو مسائل میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ اسلامی حکومت پر لازم ہے کہ وہ صحت جیسے ناگزیر امور پر خرچ کرنے پر کوئی سمجھوتا نہ کرے۔ اسلام سرمایہ داریت کی طرح صحت جیسے بنیادی شعبہ کو صفر نقصان اور زیادہ سے زیادہ منافع کی بنیاد پر استوار کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام میں ریاست عام اور ہنگامی ہر حالت میں عوام کی نگہبان ہوتی ہے۔