گمنام سپاہی…

439

ظفر عالم طلعت
آج لاک ڈاون کو 28 دن سے زائد ہو چکے ہیں۔ اس دوران بے حساب واقعات نظروں کے سامنے سے گزرے ہیں۔ جن میں سے بہت سے واقعات تو سوشل میڈیا۔ الیکٹرونک میڈیا اور اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف کی انتھک کوششیں تاکہ کورونا کے مریضوں کی جان بچائی جاسکے۔ جبکہ یہ لوگ اکثر ہتھیار یعنی حفاظتی سامان کے بغیر ہی فرنٹ لائن پر جہاد کررہے ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔۔ مجبوراً کئی شہروں میں انہوں نے احتجاج بھی کیا۔ لیکن افسوس کہ حکومت نے ملک میں عموماً اور کوئٹہ میں خصوصاً ان بے چاروں پر نہ صرف لاٹھی چارج کیا بلکہ گرفتاریاں بھی کیں جو بہت ہی قابل مذمت اقدام تھا۔ اسی دوران کئی ڈاکٹرز مثلاً ڈاکٹر اسامہ۔ ڈاکٹر عبدالقادر سومرو اور دیگر اسٹاف نے جام شہادت بھی نوش کیا اور کئی اسی مرض میں مبتلا ہوکر اسپتالوں میں پڑے ہیں۔۔۔ اس کے علاوہ خدمت خلق کا کام بھی جنگی بنیادوں پر جاری و ساری ہے۔ جس میں بے شمار ادارے، حکومتی اور غیر حکومتی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ یہ سارے لوگ یقینا خراج تحسین اور تعاون کے مستحق ہیں۔ لوگوں کو ان کی دہلیز پر ہر طرح کی امداد پہنچ رہی ہے۔ جس میں راشن اور نقد رقوم بھی شامل ہیں۔ گھروں، مساجد اور اہم عوامی مقامات پر اسپرے بھی ہورہا ہے۔ ایمبولینس اور میت گاڑیوں کی خدمات بھی جاری ہیں۔ لاک ڈاون پر عملدرآمد بھی جاری ہے۔ کہیں تعلیم و ترغیب سے، کہیں رضاکارانہ طور پر اور کہیں کہیں، کبھی کبھی پولیس کی طرف سے سختی بھی ہورہی ہے۔ اللہ خیر کرے آمین
ان سارے حالات میں۔۔۔ میں آج آپ سب کی توجہ جن لوگوں کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا وہ ہیں گمنام سپاہی… گمنام سپاہی پر مجھے یاد آیا کہ جس طرح ہمارے فوجی کمانڈوز اور خفیہ ایجنسیاں کام کرتی ہیں۔ جو ہمہ وقت حالت جنگ میں ہوتے ہیں۔ کبھی بیرونی محاذ پر اور کبھی اندرونی محاذ پر اور دشمن کی چالوں کو ناکام بناتے ہیں۔ ان کے کارناموں کی کہیں تشہیر نہیں ہوتی۔ ان مجاہدوں کی نہ ہی کوئی وردی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی پہچان۔۔۔ بلکہ اکثر اوقات یہ گمنام سپاہی اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیتے ہیں مگر اف تک نہیں کرتے اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔۔۔ ہم ایسے گمنام شہیدوں اور سپاہیوں کو سلام کرتے ہیں اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ مگر نہ تو ان کے ناموں سے واقف ہوتے ہیں۔ اور نہ ہی ان کے چہروں سے۔ یہاں تک کہ ان کے کارنامے بھی ملکی اور قومی مفاد کی وجہ سے تاریخ کی فائلوں میں دفن ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح آج کل خدمت خلق کے کاموں میں بھی بہت سی تنظیمیں مصروف عمل ہیں۔۔۔ جن کی شناخت بھی ہے۔ جن کے ناموں اور کارناموں سے بھی لوگ واقف ہیں۔ جو کسی نہ کسی جھنڈے یا بینر تلے کام کررہی ہیں۔ جن کے کارکن شناختی جیکٹ بھی پہنے ہوتے ہیں۔ جن سے پتا چلتا ہے کہ یہ الخدمت ہے۔ سیلانی ہے۔ ایدھی ہے۔ یا کوئی اور… ان کی تشہیر بھی کسی نہ کسی شکل میں ہورہی ہے۔ سو شل میڈیا۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز اس کے گواہ ہیں۔ لیکن کچھ ایسے بھی اللہ کے بندے ہیں۔۔۔ جو نہ شناخت کراتے ہیں۔ نہ ہی کوئی پہنچان،نہ کوئی وردی اور نہ کوئی شناختی جیکٹ۔ مگر وہ دن رات خدمت خلق میں لگے ہوئے ہیں۔ یا وہ جانتے ہیں یا پھر ان کا خدا جانتا ہے۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔۔۔ یہ لوگ کبھی زلزلوں میں کشمیر اور شمالی علاقوں میں متحرک نظر آتے ہیں۔ کبھی سیلابوں میں پنجاب کے سبزہ زاروں میں دوڑتے نظر آتے ہیں تو کبھی تھر کے ریگزاروں میں لوگوں کی بھوک پیاس بجھا رہے ہوتے ہیں۔وہ فرشتوں اور سائیوں کی طرح اپنے مشن پر رات دن مصروف عمل ہیں۔ کہیں راشن بانٹ رہے ہیں۔ کہیں راشن کا تھیلا گھروں کے دروازوں پر رات کی تاریکی میں رکھ کر دستک دے کر غائب ہوجاتے ہیں۔ (اس واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی ویڈیوز اور پکچرز ہیں)۔ کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔۔ پوری تحقیق کے بعد مستحقین تک پہنچ رہے ہیں۔ ان کی عزت نفس کا بھی پوری طرح سے خیال کررہے ہیں۔ کہیں نقد رقم پہنچا رہے ہیں۔۔ اور کہیں اسپرے کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔
اللہ جانے کون بشر ہے؟؟
صرف اللہ کی رضا۔ امت مسلمہ اور انسانیت کا درد ہے۔۔۔
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔