ظلم و ستم کی انتہا

465

گستاخی معاف! اگر تو ہین عدالت کا ہتھوڑا حرکت میں نہ آئے تو ہم یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ لاک ڈائون کی وجہ سے عدالتیں مقدمات کی سماعت نہیں کر رہی ہیں۔ اگر جج صاحبان فرصت کے دنوں سے لطف اندوز ہونے کے بجائے عدالتوں میں مقدمات کے جو انبار لگے ہوئے ہیں اور اپیل در اپیل کے ابلیسی دائرے میں جن حقداروں کو پا بہ زنجیر کر دیا گیا ہے ان مقدمات پر نظر ثانی فرما کر عدالتوں کو رلیف اور سائلین کو انصاف فراہم کر سکتے ہیں۔ مگر افسوس کہ کوئی بھی با اختیار ادارہ عوام کو اذیت سے نجات دلانے میں دلچسپی نہیں لیتا۔ بس! اسے تو تنخواہ ہی کے لیے اختیارات کو استعمال کرنے میں دلچسپی ہوتی ہے۔ عدالتوں کی الماریوں میں مقدمات کا جو انبار پڑے پڑے بوسیدہ ہوگیا ان میں پچاس فی صد مقدمات جعل سازی پر مبنی ہیں جنہیں سول کورٹ اور سیشن کورٹ نے عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کر دیا ان کی
سماعت عدالت کے وقت کا ضیاع اور سائلین کو ذہنی اذیت دینے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ واجب الاحترام جسٹس جواد حسن نے کہا تھا کہ ثبوت کے بغیر مقدمے کی سماعت ایک شرم ناک فعل ہے۔ دنیا کی کوئی بھی عدالت ثبوت کے بغیر سماعت نہیں کرتی مگر ہمارا نظام عدل نظام سقائی پر چلایا جا رہا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ سول کورٹ دس پندرہ سال تک اسی مقدمے کی سماعت کے بعد عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج کر دیتی ہے تو پھر سیشن کورٹ کس قانون کے تحت اس کی سماعت کرتی ہے اور چار پانچ سال کے بعد سول کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے۔ عدالتی نظام کے ظلم کی انتہا یہ ہے کہ پھر ہائی کورٹ دس پندرہ برس کے بعد سول کورٹ اور سیشن کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کر لیتی ہے اور اس سے بڑا ستم یہ ہے کہ سپریم کورٹ مدعی کو گرما گرم سپریم چائے پیش کر دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری عدالتیں سائلین کو دھکے پر دھکا کیوں دیتی ہیں؟ حالانکہ نظام عدل کو صرف ایک دھکے کی ضررت ہے۔ اگر کوئی چیف جسٹس آف پاکستان نظام عدل کو خود دھکا مار دے تو یہ قوم پر ایک ایسا احسان ہوگا جسے قوم تا قیامت یاد رکھے گی۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ ماں کب جنم لے گی جس کی کوکھ سے انصاف کا علمبردار پیدا ہوگا اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وطن کی مٹی بہت زرخیز ہے اسے تھوڑے سے نم کی ضرورت ہے مگر ایسا اُسی وقت ممکن ہو گا جب کوئی ایسا میکنزم لایا جائے جو قوم کی آنکھیں نم کرنے کے بجائے وطن کی مٹی کو نم کر سکے۔ فی الحال تو یہ مشکل دکھائی دیتا ہے مگر ناممکن نہیں۔ سو، ہمیں یہ امید رکھنا چاہیے کہ قوم کا نجات دہندہ ضرور آئے گا اور ظلم و ستم کے سونامی کو بہا کر لے جائے گا۔