لٹیروں کے لیے وزیراعظم کا بیان صفائی

316

گندم اور چینی کے بعد پاور اسکینڈل سامنے آچکا ہے مگر ان تمام اسکینڈلوں کے کرداروں کا ابھی تک کچھ نہیں بگاڑا جاسکا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اہم کرداروفاقی کابینہ میں موجود ہیں اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نیازی ان تمام کرداروں کی برسرعام پشت پناہی بھی کررہے ہیں ۔ موجودہ حکومت کے میگا اسکینڈل سامنے آتے ہی مرکزی کرداروں کو بچانے کے لیے سب سے پہلے تو کمیشن بنانے کا آزمودہ نسخہ آزمایا گیا اور یوں وقت حاصل کرلیا گیا کہ کس طرح سے ملزمان کو بچانا ہے ۔ اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ تمام ملزمان کو فوری طور پر اقتدار کی راہ داریوں سے دور کردینا چاہیے تھا تاکہ غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوسکیں مگر ہوا یہ کہ سب کے سب وفاقی کابینہ میں نہ صرف شامل ہیں بلکہ ان کا شمار بااثر وزرا میں ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نیازی نے فرمایا ہے کہ پاور اسکینڈل میں ملوث وزراء ندیم بابر ، خسرو بختیار اور عبدالرزاق داؤد انتہائی قابل اور ایماندار ہیں ۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ وزیر اعظم عمران خان نیازی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ان کی کابینہ کے تینوں ارکان تحقیقاتی کمیشن سے کلیئر ہوں گے ۔ یہ کہہ کر وزیر اعظم نے تحقیقاتی ایجنسیوں کو واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ تحقیقاتی کمیشن سے کس طرح کی رپورٹ کی توقع رکھتے ہیں ۔ اس پر مزید انہوں نے کہا کہ نجی شعبے میں قائم پاور کمپنیوں سے معاہدے گزشتہ ادوار میں کیے گئے ۔ یہ کہہ کر انہوں نے تحقیقاتی کمیشن کو ایک اور اشارہ دیا ہے کہ کس نہج پر رپورٹ تیار کی جائے ۔ یہ بات درست ہے کہ یہ معاہدے گزشتہ دور میں کیے گئے مگر یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ ان معاہدوں کی مدت ختم ہوئے عرصہ گزر چکا ہے مگر ان معاہدوں پر نظر ثانی محض اس لیے نہیں کی جارہی ہے کہ اس میں ان لوگوں کو اربوں روپے سالانہ کے فائدے ہیں جو کابینہ میں وزیر اعظم عمران خان کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوتے ہیں ۔ جس مشکوک طریقے سے وزیر اعظم عمران خان نیازی اپنی کابینہ کے ارکان کا دفاع کررہے ہیں ، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ تحقیقاتی کمیشن کیا فیصلہ دے گا اور کس طرز کا انصاف ہوسکے گا ۔ ملک لوٹنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اب تو ضروری ہوگیا ہے کہ وزیر اعظم ہی کو ان کے منصب سے علیحدہ کیا جائے تاکہ وہ کسی قسم کی تحقیقات پر اثر انداز نہ ہوسکیں ۔