حافظ نعیم ،سکھر
اسلام وہ تحریک ہے جو معبود واحد کے نظریہ پر انسانی زندگی کی عمارت کو کھڑا کرنا چاہتی ہے، یعنی یہ نظریہ کہ اس کائنات کا خالق و مالک صرف اور صرف ایک ہے، اور اس کا اس میں کوئی شریک نہیں، اور انسان کی حیثیت اس دنیا میں اس مالک کے نائب اور خلیفہ کی ہے، اگر کوئی اس خام خیالی میں ہو کہ وہ اس کائنات میں مختار کل ہے تو وہ ایک بہت بڑی غلطی میں مبتلا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انسان کا بنیادی مذہب اسلام ہی ہے، لیکن جس معاشرے میں اس کی تربیت اور اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے، وہ اس کو متعلقہ رسوم و رواج اور مذہب سے جوڑ دیتا ہے، کیونکہ انسان کی ابتدا سیدنا آدمؑ سے ہوئی تھی اور وہ مسلمان تھے، قرآن کریم اور تاریخ کے اوراق کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب جب انسان راہ مستقیم سے ہٹا ہے، اللہ تعالیٰ نے انسانی ہدایت کے لیے مختلف مواقع پر مختلف رسولوں اور انبیاء کرامؑ کو ارسال فرمایا ہے، تاکہ وہ پھر سے ان کو گمشدہ راہ کی طرف دعوت دیں،ا ور ہر پیغمبر نے اپنی قوم کو یہ واضح تعلیمات دی تھیں کہ اس کائنات کل کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، جس میں اس کا کوئی شریک نہیں اور انسان کی فلاح صرف اس میں ہے کہ وہ زمین پہ بحیثیت اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اس کے احکامات کی تعمیل کرے، لیکن ہوا کچھ یوں ہے کہ انسان اپنی عجلت اور ہٹ دھرمی کے باعث خدا سے کوسوں دور ہو چکا ہے، کسی کو اقتدار کا نشہ ہے تو کوئی کائنات کے نظام میں فساد پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ جب انسان کی اس روش نے طول پکڑا تو کائنات کا نظام مالک کل کے حکم سے حرکت میں آیا، اور کورونا جیسے حقیر جرثومے کے سامنے دنیا کی سپر طاقتیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئیں۔ بھلا کس کے وہم و گمان میں تھا کہ اس دور میں بھی جب انسان چاند پر پہنچ چکا ہو ایک ان دیکھا جرثومے انسان کو شکست خوردہ کر دے گا، آج پھر ثابت ہو چکا اور سائنسدانوں کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کوئی تو ہستی ہے جو اس نظام کل کو چلا رہی ہے، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے بارہا اپنی کتاب میں فرمایا ہے: ’’ان فی اختلاف اللیل و النھار وما خلق اللہ فی السموٰات و الارض لاٰیات لقوم یتقون (یونس)‘‘۔ ترجمہ: ’’یقینا ڈرنے والی قوم کے لیے دن اور رات کے اختلاف اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمانوں میں پیدا کیا ہے اس میں نشانیاں ہیں‘‘۔
کائنات کا مالک بار بار فرماتا ہے ذرا عقل کو تو استعمال میں لائو، کیا تمہیں یہ بڑے پیمانے پر کائنات بنی نظر نہیں آتی، کیا رات اور دن میں خود بخود تغیر واقع ہوتا ہے، کیا آسمان وزمین نظر نہیں آتے،کیا ان میں سورج، چاند، ستارے، نہریں، درخت، قدرت کے عجائب نظر نہیں آتے، اگر نظر آتے ہیں تو ان میں ڈرنے والوں اور عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ در حقیقت اگر انسان غور و فکر کرے تو اس کا وجود ہی کسی خالق کا متقاضی ہے، اور ضرور بہ ضرور اس کو اپنے خالق حقیقی کی طرف پلٹنا ہے، اور اس کو اپنے کیے کا حساب کتاب دینا ہے۔ آخرت بھی برحق ہے، اگر کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو آخرت کے ثبوت کی دلیل خود اسے اپنے وجود پہ غور کرنے سے مل جائے گی، کیونکہ انسان بھی تو خود معدوم تھا لیکن آج وہ موجود ہے، اب انسان کو جو ذات عدم سے وجود میں لائی ہے وہ آخرت کو وجود میں لانے پہ بھی بطریق اولیٰ قادر ہے۔
کائنات بنانے والے نے بھی کائنات کو کسی مقصد کے بغیر نہیں بنایا، کائنات کو انسان کے لیے بنایا گیا ہے تاکہ انسان اس میں اپنی اخلاقی ذمے داریاں ادا کر سکے، اور وہ ذات جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اس سے اس کی اخلاقی ذمے داریوں کے بابت لازماً پوچھے گا، اور اس کو اس کے مطابق جزا دے گا۔
لہٰذا آج انسان کو سوچنا ہوگا کہ وہ اس وقت کہاں کھڑا ہے، اور اس کی فلاح کس چیز میں مستور ہے، آج خدا نے اس وبا کی صورت میں انسان کو تنبیہ کی ہے، اگر انسان کے ہاتھ سے یہ موقع بھی نکل گیا اور اجل آپڑی تو انسان ذات کے پاس ماسوائے ندامت اور حسرت کے آنسوئوں کے کچھ نہ ہوگا، آج اگر اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے صرف کورونا جیسے جرثومے نے انسان کو تباہی کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے، تو اس مالک کی قیامت کیسی ہوگی انسان کو اندازہ کر لینا چاہیے۔