حالات حاضرہ اور رمضان المبارک کا پیغام

989

دردانہ صدیقی
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جائو۔ (البقرہ) رمضان کیا ہے؟ عظیم الشان بابرکت مہینہ جسے مختلف ناموں ںسے پکارا گیا ہے۔ شہر الصوم، شہر القرآن، شہر التقویٰ، دعائوں کی قبولیت کا مہینہ، استغفار کا مہینہ، نیکیوں کا موسم بہار، اللہ کا قرب حاصل کرنے اور اس کی بے پایاں رحمتوں سے مستفید ہونے کا مہینہ، جہنم سے نجات کا مہینہ۔
سیدنا سلمان فارسیؓ سے روایت ہے: نبی اکرمؐ نے شعبان کی آخری تاریخ کو خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو تمہارے اوپر ایک بڑا بزرگ مہینہ سایہ فگن ہوا ہے۔ یہ بڑی برکت والا مہینہ ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس کی ایک رات (ایسی ہے جو) ہزار مہینوں سے زیادہ افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں کے قیام کو تطوع (نفل) قرار دیا ہے۔ جس شخص نے اس مہینہ میں کوئی نیکی کر کے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے دوسرے دنوں میں کوئی فرض ادا کیا (یعنی اسے ایسا اجر ملے گا جیسے دوسرے دنوں میں فرض ادا کرنے پر ملتا ہے) اور جس نے اس مہینے میں ایک فرض ادا کیا تو وہ ایسا ہے جیسے دوسرے دنوں میں اس نے ستر فرض ادا کیے اور رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنت ہے اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس میں کسی روزے دار کا روزہ کھلوائے تو وہ اس کے گناہوں سے مغفرت اور اس کی گردن کو دوزخ کی آگ سے بچانے کا ذریعہ ہے اور اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اس روزہ دار کے لیے۔ روزہ رکھنے کا بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا جہنم سے نجات ہے۔ (ابن ماجہ، بیہقی)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیاطین اور وہ جن جو برائی پھیلانے پر کمر بستہ رہتے ہیں باندھ دیے جاتے ہیں اور پھر دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں پھر ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور پکارنے والا پکارتا ہے کہ اے بھلائی کے طالب آگے بڑھ اور اے برائی کے طالب رک جا اور اللہ کی طرف سے بہت سے لوگ ہیں جو آگ سے بچنے والے ہیں اور یہ ہر رات کو ہوتا ہے۔ (ترمذی وابن ماجہ)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اس میں اللہ کی طرف سے ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا۔ (احمد و نسائی) یہ وہ رات ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کا نزول انسانیت کے لیے عظیم الشان خیر کی حیثیت رکھتا ہے اور انسان کے لیے اس سے بڑی کوئی خیر نہیں ہوسکتی۔ پوری انسانی تاریخ میں کبھی ہزار مہینوں میں بھی انسانیت کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں ہوا ہے جو اس ایک رات میں ہوا ہے۔
نبی اکرمؐ کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی آمد سے قبل شعبان کے مہینے میں آپؐ ایسے خطبات ارشاد فرمایا کرتے تھے جن میں رمضان کی فضیلت اور روزوں کے احکام کا بیان ہوتا تھا جس کے ذریعے رمضان کے فیوض و برکات سے کما حقہ مستفید ہونے کے لیے کمر کس لینے کی منادی ہوتی تھی او رنبی اکرمؐ کی ہدایت کے مطابق صحابہ کرامؓ اس کی تیاری میں مصروف ہوجایا کرتے تھے۔ آج یہ منادی ہمارے لیے ہے۔
رمضان المبارک میں آپؐ کا اسوہ کیا تھا؟ آپؐ کا رنگ بدل جاتا تھا، نمازوں میں خشوع بڑھ جاتا، دعائوں میں عاجزی بڑھ جاتی، تیز ہوا سے زیادہ انفاق کرنے والے ہوجاتے۔
آج ماہ رمضان جن حالات میں آرہا ہے، یہ زمانے کے نشیب وفراز غور کرنے اور عبرت حاصل کرنے کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ آزمائش کی اس گھڑی میں جب کے پوری دنیا ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس کی تصویر بنی ہوئی ہے، عالمی طور پر ایک وبا کی لپیٹ میں ہے جس نے مادی دنیا میں ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ کی تقسیم کو منہدم کردیا ہے، انسان فطرت کے انہی اصولوں کی جانب لوٹ رہا ہے جس کا سبق آج سے چودہ سو سال پہلے نبی مہربانؐ دے چکے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیا کی زندگی کے دھوکے میں انسان اس قدر مگن ہوگیا کہ وہ بھول گیا کہ اللہ ہی ہر چیز پر قادر ہے، آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک مرتبہ پھر یہ موقع دیا ہے کہ ہم اس کی جانب پلٹ جائیں، اس ربّ کبیر کے آگے اپنی عاجزی کا اظہار کریں، اس سے اپنے گناہوں، کوتاہیوں اور اپنی انفرادی و اجتماعی بداعمالیوں کی معافی کے طلبگار ہوں۔
آج ایک نئی اور بدلتی ہوئی دنیا ہمارے سامنے ہے، جو ہر طرف کورونا وبا کی زد میں ہے۔ ہر طرف بے چینی، اندیشے، خوف اور سوالات ہیں۔ ایک جانب اس وبا کے علاج اور ویکسین کی تیاری کی باتیں ہیں اور دوسری جانب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسی خبریں بھی گردش میں ہیں کہ یہ وائرس دراصل بائیو لوجیکل ہتھیار کے طور پر تیار کیے گئے ہیں اور اس کا اصل ہدف بین الاقوامی طاقت اور معیشت کے توازن کو اپنے حق میں کرنا ہے۔ یہ بین الاقوامی قوتوں کی جانب سے نیو ورلڈ آرڈر کا تسلسل ہے، بالفرض اس کو درست مان لیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ دراصل یہ سب انسانیت کے مجرم اور انتہائی سفاک لوگ ہیں۔ دنیا اور مادیت جس کا خدا ہے اور اس کے حصول کے لیے یہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ تاریخ کے ساتھ حال بھی گواہ ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے انسانوں کے بے دریغ قتل عام اور نسل کشی سے ہی گریز نہیں کرتے رہے ہیں۔ ایسے انتہائی خود غرض اور ظالم قوتوں کے ہاں اللہ کے حضور جواب دہی، سزا اور عادلانہ نظام زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مادہ پرست اور اللہ سے بے نیاز و باغی دنیا میں اس وبائی ماحول کے نفسیاتی اثرات بھی انتہائی بھیانک ہیں۔ مایوسی، خوف، غصہ، ڈپریشن جس کے نتیجے میں مغربی ممالک سے آنے والی رپورٹس کے مطابق یورپ اور آسٹریلیا میں گھریلو تشدد بڑھ گیا ہے۔ امریکا میں منشیات کے استعمال میں اضافہ قابل لحاظ حد تک بڑھ چکا ہے، یورپ اور امریکا میں خود کشیوں کا تناسب بڑھ گیا ہے۔ مغربی ممالک کی ساری تعلیم، ترقی، سائنس، ٹیکنالوجی، مضبوط سیاسی، معاشی و عسکری نظام متزلزل ہے اور یہ سب قرآن کی اصطلاح میں تارعنکبوت ثابت ہو رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا اور عالم انسانیت منتظر ہے اسلام کے نظام عدل اور رحمت کی۔ کیونکہ وہ اللہ جو اپنے بندوں سے ستر مائوں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے اس کا نظام رحمت ہی زمین پر بسنے والوں کے تمام زخموں کا مرہم اور نسخہ شفا ہے۔ لہٰذا اس کی جانب رجوع، توبہ اور اس کی رحمت کا حصول ہی اس صورتحال سے نکال سکتا ہے۔
’’کہہ دو! اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، بے شک اللہ سب گناہ بخش دے گا، بے شک وہ بخشنے والا، رحم فرمانے والا ہے‘‘۔
اس پیغام کو پورے اخلاص اور درد مندی کے ساتھ لوگوں تک پہنچنانا ہی کارنبوت اور میری اور آپ ذمے داری ہے۔ آج انسانیت اللہ تعالیٰ کے احسان و کرم کی متلاشی ہے۔ یورپ میں مساجد کے میناروں سے اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی ہیں، اس میں میرے، آپ اور تمام داعیان الی اللہ کے لیے اسلام کی حقانیت کا پیغام جاں فزا ہے۔ ربّ کا پیغام اور رسول رحمتؐ کی دعوت انسانیت تک پہنچانا بحیثیت امت مسلمہ تک پہنچانا ہماری ذمے داری ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکن کی حیثیت سے ہم اپنی قوم کی اور ساری انسانیت کے مسیحا ہیں۔ اس آزمائش کے وقت میں الحمدللہ جماعت اسلامی اور الخدمت کی مسیحائی اظہر من الشمس ہے جس کی گواہی اپنے تو اپنے مخالفین بھی دے رہے ہیں۔ یہ مسیحائی دنیا میں عوام الناس کے مادی مسائل کو حل کرکے بھی کرنی ہے اور دنیا میں اللہ کے راستے کی طرف ان کی راہنمائی کرکے بھی کرنی ہے تاکہ دنیا میں اللہ کے عذاب اور آخرت میں جہنم سے بچا جاسکے۔
رمضان المبارک ان حالات میں آرہا ہے کہ مجموعی طور پر ماحول میں رجوع الی اللہ کی طلب اور فضا موجود ہے۔ بحیثیت داعی الی اللہ ہم سب اس ماہ کو قرآن سے تعلق اور راہنمائی کا ذریعہ بنائیں۔ حالات سے اندازہ ہورہا ہے کہ اس سال دورہ قرآن کے لیے معمول کے اجتماعات کا انعقاد غالباً ممکن نہ ہوسکے مگر داعی الی اللہ تو موقع شناس ہوتا ہے، اس کے اندر کی تڑپ اور لگن متبادل ذرائع اختیار کرلیتی ہے،
اپنے اہداف کے حصول کے لیے پانی کی طرح چٹانوں کے درمیان سے بھی راستے بنا لیتا ہے لہٰذا حلقہ خواتین کی جانب سے امسال رمضان کی منصوبہ بندی میں تمام سوشل میڈیا کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے آن لائن پروگرامات کا انعقاد کیا جارہا ہے، جس میں استقبال رمضان کے پروگرامات، روزانہ دورہ تفسیر القرآن از مولانا مفتی عطاء الرحمن صاحب، مختصر نکات پر مبنی دورہ قرآن، تینوں عشروں کے پروگرامات، نوجوانوں کے لیے علیحدہ دورہ قرآن، یوتھ واٹس ایپ شارٹ کورس، علاقائی زبانوں میں خصوصی دروس، تکمیل ِ قرآن پر دعا کا پروگرام اور عید کا پیغام شامل ہیں۔ یہ تمام پروگرامات طے شدہ تاریخوں میں سوشل میڈیا، واٹس ایپ اور جماعت کی ویب سائٹس پر جاری کیے جائیں گے۔
میری جنت کی طلب گار بہنو! پکارنے والا تو صدا لگا رہا ہے کہ اے خیر کے طلب گار آگے بڑھ، اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ ان پروگراموں سے بھر پور استفعادے کی شکل بنائی جائے۔ اپنے اہل خانہ، خاندان سمیت تمام دعوتی دائرہ کار میں متعین افراد، پڑوسی، دوست، احباب، بیرون ملک مقیم ہمارے روابط، ان تمام دائروں میں پروگرامات کی ترسیل کی جائے۔ ساتھ ہی ان افراد سے مستقل رابطے اور فالواپ کا نظام بنایا جائے۔ ہر فرد بیس سے پچیس افراد پر مبنی واٹس ایپ گروپ کی تشکیل کرے اور ان تک پروگرامات پہنچانے کی ابتدا اس ماہ ِ مبارک سے کرے۔ سب سے پہلے ہم اپنے ذاتی توشہ ایمان اور تقویٰ کی آبیاری کی منصوبہ بندی اور اس کے لیے اہداف تیار کریں۔ مثلاً منتخب سورتوں کا حفظ، دیے گئے نصاب کا مطالعہ، قیام اللیل کا اہتمام، دعائوں کا یاد کرنا اور کثرت سے اہتمام کرنا، اعتکاف میں بیٹھنا، ان تمام امور کی انجام دہی سے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرنا اور اپنے اور رب کے درمیان تعلق کو پروان چڑھانے کی کوشش کرنا۔
یہ اللہ کی جانب سے ہمارے لیے بہترین موقع اور وقت ہے کہ ہم تنہائی میں قرآن سے گہرا رابطہ پیدا کریں اور اس میں غوطہ زن ہو جائیں۔ گھروں کے اندر قرآن کی محفلیں سجائیں، ہر گھر کو قرآن کا مرکز بنائیں، آن لائن استقبال ِ رمضان دورہ قرآن اور دورہ تفاسیر کے پروگرامات سے اپنے اہل خانہ سمیت استفادہ کریں۔
صرف اپنے ہی نہیں اپنے تمام روابط کو ہی اہل خانہ کے ساتھ ان پروگرامات سے استفادے کی رہنمائی دیں۔ اہل خانہ کی تربیت کے لیے یہ بہترین موقع ہے بالخصوص جہاں نوجوان گھروں میں موجود ہیں۔ اپنے گھر والوں کی عمر، استعداد اور رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے شعبہ اطفال اور شعبہ نوجوان کی جانب سے فراہم کردہ سرگرمیوں سے بھر پور استفادہ کیا جائے، نوجوان کے واٹس ایپ گروپ میں اسی سلسلے کو شیئر کیا جائے۔ ان شرکاء کے ذریعے مزید شیئرنگ کی نیٹ ورکنگ کروائی جائے، اسی طرح بیرون ملک مقیم اپنے رابطے کا گروپ بنا کر مزید افراد تک اسے پہنچایا جائے۔
پیارے نبیؐ نے فرمایا: کہ رمضان مواسات یعنی ہمدردی اور خیر خواہی کا مہینہ ہے۔ موجودہ حالات میں مواخات کی سنت پر بھی عمل کرنے کا موقع ہمارے پاس ہے۔ اپنے آس پاس سفید پوش افراد کو تلاش کیا جائے، ان کی فہرست سازی کی جائے، تمام مخیر روابط تک الخدمت کی اپیل برائے راشن اور طبی امداد پہنچائی جائے، مقامی سطح پر مواخات کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، نیز بیت المال کے استحکام پر توجہ رکھنا (بذریعہ اعانت و زکوٰ ۃ) بھی ہماری ذمے داری ہے۔ لیلۃ القدر اور آخری عشرے کو ذاتی عبادات، ممکن ہو تو اعتکاف، قیام اللیل، توبۃ النصوح اور دعا کے لیے مختص کر لیں۔
نبی مہربان نے فرمایا : کہ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھا اور اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام اللیل کیا اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
گناہوں کی معافی کی اس نوید کو حاصل کرنا ہے تو انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کا محاسبہ ہمارے لیے لازم ہے۔ اس کے ساتھ توبۃ النصوح اور رجوع الیٰ اللہ کا اہتمام ضروری ہے
نبی نے فرمایا : کہ تمام ابن ِ آدم خطا کار ہیں مگر بہترین خطا کار وہ ہے جو توبہ کر لے، اپنے رب کے سامنے گڑ گڑاتا ہے کہ وہ اپنی عافیت اور رحمت کے سائے میں ہمیں لے لے، اللہ ہی ہے جو ہماری پکار سن سکتا ہے، اس ہی کی ذات کا آسرا ہے، اس ہی کو تھام کر اسی پر بھروسہ کرنا ہے، آیئے کوشش کریں کہ اس ماہ مبارک کو اللہ تعالی کی رحمت اور مدد سے اپنے لیے، اپنے اہل خانہ، خاندان، تمام اہل وطن، پوری امت اور پوری انسانیت کے لیے نجات کا مہینہ بنالیں۔
اللہ تعالی ہم سب کو رمضان کی رحمتیں اور برکتیں عطا فرمائے اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ، صحت اور عافیت کے ساتھ رمضان المبارک کی ساعتوں سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین