رمضان اور نمازپابند، مہنگائی کا جن آزاد

498

اسلامی جمہوریہ پاکستان سمیت مسلم دُنیا میں رمضان المبارک شروع ہو گیا ہے۔ اس سال رمضان المبارک عجیب طریقے سے آیا ہے کہیں تراویح نہیں کہیں نمازجمعہ نہیں، عمرہ بند اور حرمین میں تراویح بھی محدود ہے۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی لوگ پورے اہتمام سے مساجد کا رخ کرتے تھے۔ تراویح کا اہتمام ہوتا تھا اور بازاروں میں بھی چہل پہل ہوتی تھی۔ لیکن کورونا کی وبا اس کی ہلاکت خیزی اور اس سے بھی زیادہ اس کی ہلاکت خیزی کے بارے میں مہم نے پوری قوم کو سہما کر رکھ دیا ہے۔ نمازی ہے تو ڈرتا ہوا مسجد کی طرف جاتا ہے۔ کسی کو کھانسی آجائے تو لوگ اسے خوف کے عالم میں دیکھنے لگتے ہیں۔ غرض ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا سبب کیا ہے؟ کون ذمے دار ہے؟ یہ تو پتا چلا ہے نہ پتا چلے گا لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان تو ان ممالک میں سے ہے جن میں کسی معاملے کا پتا نہیں چلتا۔ خواہ ملک ٹوٹ جائے پتا نہیں چلتا… خرابی یہی ہوئی ہے کہ ہمارے ادارے، حکمران اور سیاستدان ایسی کسی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ پاکستان میں وبا پھیلنے کے دو ماہ بعد سندھ کے وزیراعلیٰ کی جانب سے یہ اطلاع دی گئی کہ ہم کورونا ڈیٹا بیس بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ڈیٹا یا اعداد وشمار ایک ایسی چیز ہے جس کی بنیاد پر سارے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ اعداد و شمار بلدیات کے پاس کافی حد تک ہیں لیکن ان کو استعمال کرنے کے بجائے نامعلوم اور پراسرار ذرائع سے اعداد و شمار سامنے لائے جا رہے ہیں۔ اگر حکمرانوں نے دسمبر میں وبا پھوٹنے اور فروری میں پاکستان میں پہلے کیس یحییٰ جعفری کے ایران سے آنے کے بعد کوئی متفقہ لائحہ عمل بنا لیا ہوتا تو ڈھائی ماہ بعد تراویح، جمعہ کی نماز اور مساجد جانے والوں کو مجرم تصور نہ کیا جاتا۔ لیکن یہاں دوہرا عذاب ہے۔ ایک یہ کہ حکمرانوں کے پاس اعداد و شمار نہیں اور ہوں بھی تو وہ ہر قسم کی صلاحیتوں سے عاری ہیں، دوسرے یہ کہ جو لوگ حکومتوں اور میڈیا میں اہم پوزیشنوں پر براجمان ہیں وہ دین بیزار ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور اس کے نتائج کیا ہوں گے، بس ان کی خواہش یہ ہے کہ مذہبی عناصر بدنام ہوں، مذہب سے لوگوں کو برگشتہ کر دیا جائے، وہ اس میں عارضی طور پر کامیاب بھی ہو گئے ہیں لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آٹا، چینی مافیا کی طرح ملک بھر میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی اسی معمول کے ساتھ آئی ہے جس کے ساتھ ہر سال رمضان میں آتی ہے۔ کورونا نے نمازیں، جمعہ اور تراویح کو تو رکوا دیا لیکن مہنگائی کو نہ رکوا سکا۔ جن لوگوں کی ذمے داری مہنگائی پر کنٹرول کرنا ہے ان کو اس کی فرصت نہیں اور اہلیت بھی نہیں۔ وہ تو رشوت لے کر دکانیں کھلوانے میں مصروف ہیں، اگر پانچ ہزار روپے میں چھوٹی سی دکان کھولی جائے گی تو مہنگائی میں وہ دکاندار بھی حصہ لے گا۔ چھوٹی سی بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ کل تک کیلے، خربوزہ، تربوز وغیرہ جو معقول قیمت پر مل رہے تھے اچانک رمضان کی آمد کے ساتھ ہی دو گنی قیمت پر ملنے لگے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکومتوں کے ذمے داران اور اداروں کے افسران نے پیسے لے کر مہنگائی کی اجازت دی ہے۔ نہ پہلے پتا چلا کہ مہنگائی کہاں سے ہوتی ہے نہ اب پتا چلے گا۔ دکاندار منڈی والوں کو منڈی والے آڑھتی کو اور وہ زمیندار کو برا کہتے رہتے ہیں لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ پھلوں کی قیمت ایک ہی فصل کے دوران نہیں بڑھنی چاہیے، اس فصل میں جتنی لاگت آئی تھی وہ آچکی۔ رمضان کے چاند کے ساتھ ہی ہر ایک کی چاندی ہو جاتی ہے اور عوام مجبور ہیں وہ مہنگا سودا بھی خریدتے ہیں۔ حکمرانوں سے کون یہ سوال پوچھے کہ نماز جمعہ، با جماعت نمازیں اور تراویح تو کورونا کی وجہ سے بند یا محدود کی جا رہی ہیں لیکن یہ مہنگائی حسب معمول کیوں بڑھ رہی ہے۔ اسے تو کم ہو جانا چاہیے تھا۔ اب تو دیگر عذر لنگ بھی نہیں رہے۔ پیٹرولیم کی قیمتیں ملک میں پہلے کے مقابلے میں کم ہیں اور بین الاقوامی مارکیٹ میں تو تیل مزید سستا بلکہ مفت ہو گیا ہے لہٰذا یہ تو کہا نہیں جا سکتا کہ بار برداری کا خرچ بڑھ گیا ہے۔ حکمران مہنگائی کو روکنے میں بھی ناکام ہیں تو وہ آٹا، چینی مافیا کو کیا پکڑیں گے۔ ایک اہم بات عوام کو بھی اب سمجھ میں آجانی چاہیے وہ جس طرح کے حکمرانوں کو منتخب کرتے ہیں ان سے ایسے ہی فیصلوں کی توقع کی جانی چاہیے۔ آج کل پورے ملک میں حکمران، اپوزیشن حتیٰ کہ تنگ نظر میڈیا بھی مجبور ہے کہ الخدمت اور جماعت اسلامی کی خدمات کا اعتراف کرے۔ ہر جگہ جماعت اور الخدمت کے کاموں کے چرچے ہیں۔ الخدمت نے اپنے ڈاکٹر اور کارکنوں کی جان کا نذرانہ بھی دیا ہے۔ جماعت اسلامی پورے ملک میں خدمت کے جو کام کر رہی ہے اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ اس کے عوض ووٹ مانگے جائیں گے۔ لیکن عوام تو فیصلہ کریں کہ انہیں کیسے لوگ منتخب کرنے چاہییں۔ جیسے لوگوں کو مسلط کریں گے نتائج اسی طرح کے آئیں گے۔ آج با جماعت نماز، تراویح اور جمعہ زد میں ہیں کل تیونس کی طرح گھروں میں نماز ادا کرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اگر پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوریہ بنانا ہے تو یہاں لوگ بھی اسلامی ہی منتخب کرنے ہوں گے ورنہ دین پر مزید پابندیوں کے لیے تیار رہیں۔