محمد اکرم خالد
سندھ خاص کر کراچی میں پچھلے کئی روز سے کورونا وائرس کے سبب لاک ڈائون ہے جس پر سندھ حکومت سختی سے عمل کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر لاک ڈائون کی حقیقت کو بیان کیا جائے تو شاید خود سندھ حکومت بھی یہ جانتی ہے کہ اس لاک ڈائون کا کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہورہا، لاک ڈائون سے پہلے اور لاک ڈائون کے بعد جس تیزی سے مریضوں اور اموات میں اضافہ ہوا ہے شاید ایسا نہیں سوچا گیا تھا، ساتھ ہی ملک میں معاشی بحران، بے روزگاری کا بحران تیزی سے پھیل رہا ہے یعنی لاک ڈائون پاکستان کی حد تک ناکام ثابت ہوا ہے بڑی بڑی سڑکیں تو پانچ بجے بند کرادی جاتی ہیں مگر گلیاں، گھروں کی چھتیں اُسی طرح آباد نظر آتی ہیں اگر یہ کہا جائے کہ ان میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا یوں کہہ لیجیے کہ مساجد ویران اور گلی محلے آباد کر دیے گئے ہیں۔ یقینا ہماری حکومتوں کی کارکردگی پر ہمیشہ سے سوالیہ نشان رہا ہے جس کی وجہ سے ہم اس وقت تک ترقی کی سمت کا تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں جس پر ابھی بھی نہ سوچا گیا تو شاید ہم کورونا وائرس سے کم اور بوسیدہ معاشی نظام سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔
اس وقت یقینا تاجر برادری سخت مشکلات کا شکار ہے مگر ساتھ ہی تاجر برداری بھی یکجہتی سے محروم ہیں دو گروپوں میں تقسیم یہ تاجر حضرات چھوٹے دکانداروں پتھار ے والوں کی آواز نہیں ہیں بلکہ یہ اپنے مال پر ٹیکس ختم کرنے حکومت سے بلا سود قرضے لینے اور مزید کاروباری سہولتیں حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں ان کو اس بات کی ہر گز فکر نہیں کہ ان کا ملازم کن معاشی مشکلات کا شکار ہے کرائے کی دکان چلانے والے چھوٹے کاروباری حضرات کا نہ حکومتی ٹیکس سے نہ بلا سود قرضوں سے کوئی لینا دینا ہے ان کو تو بس اپنے کاروبار کی بحالی کی فکر ہے جس پر سیاستدانوں کی طرح مفاد پرست تاجر حضرات بھی سودے بازی میں مصروف ہیں۔
اگر آپ تاجر برادری کے مطالبات کی فہرست پر نظر ڈالیں تو اس میں چھوٹے کاروباری پتھارے والوں کا کہیں ذکر تک نہیں ہے۔ ایک تاجر رہنماء کا یہ بیان کہ حکومت ہمیں بلاسود قرض فراہم کرے، ہمارے مال پر ٹیکس ختم کیا جائے، ہم ایک ماہ کے لیے اپنے کاروبار بند کر دیں گے۔ اس بیان میں کہیں چھوٹے کاروباری حضرات پتھارے والوں کے لیے ریلیف نظر نہیں آتا کیوں کہ یہ تاجر حضرات بھی سیاستدانوں کی طرح اپنے بڑے بڑے ٹھنڈے گھروں میں بیٹھ کر ذاتی فائدہ حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
اگر تاجر اپنی برادری سے مخلص ہوتی تو ان کا صرف ایک مطالبہ سامنے آتا کہ ہمیں حکومتی ایس او پیز کے تحت کاروباری کی اجازت دی جائے تاکہ ایک پتھارے والے سے لے کر ایک بڑے تاجر تک کی ایک آواز حکومت کے سامنے جاتی۔ کبھی آپ نے یہ دیکھا ہے کہ ایک پتھارے والا بھی حکومت کے ساتھ مذکرات کی میز پر بیٹھا ہے دونوں جانب قیمتی کپڑوں میں ملبوس اشرافیہ ایک دوسرے کو اپنے مسائل کی کہانی سناتی نظر آتی ہے اور اپنے اپنے مفاد کا سودا کر کے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ہمارے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اب چھوٹا کاروباری طبقہ اور پتھارے والا حالات کے رحم وکرم پر زندگی گزارے۔ بد قسمتی سے اس ملک کو آج تک کوئی مخلص حکمران نصیب ہی نہیں ہوسکا یہی حال ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کا ہے ہر طبقے میں اشرافیہ کا ایک ٹولہ ہوتا ہے جو غریب کے مسائل پر سیاست کر کے ذاتی مفادات کا حصول آسان بنا کر فائدہ اُٹھاتا رہا ہے۔
یقینا لاک ڈائون ضروری ہوسکتا ہے مگر معاشی نظام کو مزید لاک ڈائون رکھنا کورونا وائرس سے زیادہ مشکل ہوجائے گا اس لیے ضروری ہے کہ ارباب اختیار ایس او پیز کے تحت وقت کا تعین کرتے ہوئے چھوٹے کاروباری حضرات جن میں کپڑے جوتے چوڑی والا جو پورے سال رمضان اور عید کے سیزن کا انتظار کرتا ہے اور پورا سال اس میں ہی گزارہ کرتا ہے اس سے یہ موقع نہ چھینا جائے اس کو مختصر اوقات میں کاروبار کی اجازت دی جائے تاکہ یہ بغیر حکومتی ریلیف کے اپنے گھر کا معاشی نظام چلا سکے نہ کہ چند بڑے تاجر حضرات کو ٹیکس اور بلا سود قرضے کی فراہمی آسان بنا کر غریب کے منہ سے نیوالہ چھینا جائے۔ روز آخرت کی جوابدہی کا خوف رکھتے ہوئے درست فیصلے کیے جائیں۔
اگر طبی ماہرین اس وبا سے محفوظ رہنے کے لیے لاک ڈائون ہی کو اہمیت دے رہے ہیں تو لاک ڈائون نہیں بلکہ کرفیو لگنا چاہیے مگر اس سے پہلے ہر طبقے کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے اگر ہماری معاشی حالت مفلوج ہے ہم سب کو ریلیف فراہم نہیں کر سکتے تو ہمیں پلان بی کی جانب جانا ہوگا تمام کاروباری سر گرمیوں کو ایس او پیز کے تحت بحال کیا جائے۔ صبح نو سے شام پانچ بجے تک ہر طبقے کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنے کاروبار کی اجازت دی جائے حکومتی ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والے کے کاروبار کو مکمل سیل کر دیا جائے۔ پانچ بجے کے بعد لاک ڈائون نہیں بلکہ کرفیو نفاذ کر دیا جائے مگر خدارا عوام کے معاشی معاملات کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے اگرآپ راشن امدادی چیک دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو کم ازکم عوام کو اپنے معاشی معاملات کو حل کرنے کی اجازت تو دے سکتے ہیں۔