سمیع گوہر
ملک میں اس سال چینی اور گندم کی مصنوعی قلت اور ان کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافے کے بعد اس ضمن میں ہونے والی بدعنوانیوں کا پتا چلانے کے لیے قائم کی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد ملک میں نجی شعبہ کے بجلی گھروں کی جانب سے کی جانے والی لوٹ کھسوٹ کے بارے میں کی جانے والی تحقیقات کی رپورٹ بھی سامنے آگئی ہے جس کے مطابق ان نجلی شعبہ کے بجلی گھروں کی جانب سے گزشتہ 13 برس کے دوران قومی خزانہ کو 4 ہزار 802 ارب روپے کا نقصان پہنچایا جاچکا ہے جس میں سبسڈی اور گردشی قرضے بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں گردشی قرضے (سرکلر ڈیٹ) اور بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے پر زور دیا گیا ہے اور آئندہ پانچ سال تک کوئی نیا بجلی گھر قائم کرنے کی اجازت نہ دینے کی بھی سفارش بھی شامل ہے۔ رپورٹ میں زیر تعمیر بجلی گھروں پر نظر ثانی اور 25 سال پورے کرنے والے بجلی گھروں سے بجلی کی خریداری روک دینے کیا کہا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر نجی بجلی گھروں کے پے بیک کا دورانیہ دو سے چار سال کے دوران رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 16نجی شعبوں کے بجلی گھروں نے 50ارب 80 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی اور 415 ارب روپے سے زائد منافع حاصل کیا۔ تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاور سیکٹر میں ہونے والی بدعنوانیوں کی بنا پر قومی خزانہ کو 4,802 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے جس میں وزارت پانی و بجلی اور ریگولیٹری اتھارٹیز کے حکام بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
آج کے مضمون میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ملک میں جب بجلی کی فراہمی کا شعبہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہوا کرتا تھا اور اب بھی ہے تو اس کام میں نجی شعبے کو کب اور کیوں شامل کیا گیا؟۔ قیام پاکستان کے بعد ملک میں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے لیے دو ادارے وزارت پانی و بجلی کے تحت قائم کیے گئے تھے۔ پہلا واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) جو کراچی کے سوا پورے ملک میں بجلی کی فراہمی کا ذمے دار تھا۔ دوسرا کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) تھا جو کراچی اور اس کے ارگرد کے علاقوں میں بجلی فراہم کرتا تھا۔ پبلک سیکٹر کی اس کمپنی کو 2005 میں نجی شعبے کے سپرد کردیا گیا جس کا نام اب کے الیکٹرک ہوگیا ہے۔
پاکستان میں 1980 کی دہائی کے آخر سے ملک میں بجلی کی طلب و رسد میں کمی کا مسئلہ شروع ہوا اور بجلی کی طلب میں دوہزار میگاواٹ کی کمی واقع ہوجانے کی بنا پر لوڈ شیڈنگ کا آغاز ہوا۔ اس دور میں بجلی کی طلب میں اضافے کی شرح سات آٹھ فی صد کے درمیان تھی۔ اس وقت بجلی کی مانگ میں اضافہ کے پیش نظر واپڈا اور کے ای ایس سی بجلی کی ترسیل اور اس میں چوری کے بڑھتے ہوئے اضافے کی بنا پر ان کی مالی حالت اس قدر بہتر نہ تھی کہ وہ نئے بجلی گھر قائم کرسکیں۔ ان حالات میں واپڈا اور کے ای ایس سی کی پیداوار کے مقابلہ میں اس کی طلب میں مسلسل اضافے کے مسائل کی بنا پر نہ صرف بجلی صارفین کی مشکلات میں اضافہ ہونے لگا بلکہ حکومت کو بھی شدید تنقید برداشت کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ نئے بجلی گھر کی تنصیب کوئی آسان کام نہیں تھا۔ نئے بجلی گھر کی پلاننگ، حکومت کی منظوری، ٹینڈر کی اشاعت اور پروجیکٹ پر کام شروع ہونے سے اختتام تک 200میگاواٹ کے ایک بجلی گھر کے قیام کے لیے کم ازکم دو ارب روپے سے زائد سرمایے اور تین سال کی مدت درکار ہوتی تھی۔ اس دور میں حکومت بھی اپنے مالی وسائل کی کمی کے پیش نظر بجلی کے نئے منصوبوں کے لیے بجٹ میں کوئی رقم مختص کرنے سے قاصر ہوتی تھی کیونکہ ہر سال اسے اپنے بجٹ سے واپڈا اور کے ای ایس سی کے نقصانات کم کرنے کے لیے بڑی بڑی رقوم انہیں بطور سبسڈی فراہم کرنی ہوتی تھی۔ ان حالات کے پیش نظر حکومت کو بجلی کی پیداوار میں اضافے اور ملک سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے بجلی کی پیداوار کے شعبے میں نجی سرمایہ کاروں کو شامل کرنے پر مجبور ہونا پڑا اس لیے پرائیوٹ پاور انفرا اسٹرکچر بورڈ کی تشکیل کے بعد کراچی کے قریب بلوچستان کے علاقہ حب میں ملک کے پہلے نجی شعبہ کے بجلی گھر حبکو کے قیام کی منظوری دی گئی جس نے واپڈا کو بجلی فراہم کرنے کا معاہدہ کرکے تعمیراتی کا م کا آغاز کیا۔
1994 میں ملک کے پہلے نجی شعبے کے بجلی گھر حبکو پاور نے واپڈا کو 1200میگاواٹ بجلی کی فراہمی شروع کرکے کام کا آغاز کیا مگر اس وقت تک ملک میں بجلی کی طلب اور رسد کا فرق بہت بڑھ چکا تھا اور لوڈشیڈنگ کے اوقات بھی بہت بڑھ چکے تھے جس کی وجہ سے ملک بھر میں ہنگامے شروع ہوگئے تھے۔ یہ بے نظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت تھا جس کے دوران 1994میں ایک نئی پاور پالیسی کا اعلان کیا گیا جس کے تحت واپڈا اور کے ای ایس سی کو نئے بجلی گھروں کی تعمیر سے روک دیا گیا تھا اور یہ ذمے داری نجی شعبے کو منتقل کردی گئی تھی۔ پاور جنریشن کے شعبہ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کے لیے راغب کرنے کے لیے انتہائی اہل اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل افراد اور اداروں کی ضرورت ہوتی ہے جو کاپوریٹ کلچر سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس شعبے کا تجربہ رکھتے ہوں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں نجی شعبے کے سرمایہ کاروں کو بجلی گھر لگانے کی اجازت دیتے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا اور جو لوگ اس وقت کے حکمرانوں اور بیورو کریسی کو خوش کرنے کی اہلیت رکھتے تھے بجلی گھر لگانے کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ راقم الحروف کے ای ایس سی کے تعلقات عامہ کے شعبے کا سربراہ ہونے کی بنا پر نجی شعبے کے بجلی گھروں کی اجازت دینے کے پراسس کو بہت قریب سے دیکھ رہا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ غلام مصطفی کھر اس زمانے میں بجلی و پانی کے وزیر تھے، مشہور بیورو کریٹ سلمان فاروقی پانی و بجلی کی وزارت کے سیکرٹری تھے اور شاہد حسن خان وزیر اعظم کے مشیر تھے۔ لیکن اس وقت وزیراعظم پاکستان کے شوہر آصف زرداری نجی شعبے کے بجلی گھروں کی منظوری دینے والی ٹیم کے اصل سربراہ تھے جن کے معاون خصوصی سلمان فاروقی اور شاہد حسن خان تھے۔ جس نے اس ٹیم تک رسائی حاصل کرلی بجلی گھر کی تعمیر کی اجازت حاصل ہوجاتی تھی۔ اس وقت یہ نہیں دیکھا گیا کہ مستقبل میں بجلی کی طلب میں کتنا اضافہ ہوجائے گا اور حکومت کو کتنی میگاواٹ پیداواری استعداد کے بجلی گھر لگانے کی اجازت دینی ہوگی۔ اس ایک مثال یہ ہے کہ کراچی میں 1994 میں سال 2000 تک بجلی کی طلب میں اضافہ کا دو سے ڈھائی ہزار میگاواٹ کا اندازہ لگایا گیا تھا لیکن کے ای ایس سی نے دس کمپنیوں سے بارہ ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کے معاہدے سائن کرلیے تھے۔ جب میں نے اپنے ادارے کے سربراہ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تو کہا گیا کہ اپنے کام سے کام رکھو اور خاموشی سے نوکری کرتے رہو۔ وہ تو اللہ کا بڑا کرم ہوا کہ دس نجی کمپنیوں سے معاہدے کرنے کے بعد کراچی میں صرف دونجی بجلی گھروں ٹپال اور گل احمد نے بجلی کی پیداوار شروع کی جو کے ای ایس سی کو 250میگاواٹ بجلی فراہم کرنے لگے تھے۔ اسی طرح واپڈا نے بھی درجنوں نجی بجلی گھروں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے جن میں سے بیش تر شروع نہ ہوسکے۔ اس دور میں نجی شعبہ کے 15 بجلی گھروں نے پیداواری عمل شروع کیا جن سے 4,340 میگاواٹ بجلی ملنا شروع ہوسکی تھی۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں 2002 میں جاری ہونے والی پاور پالیسی کے تحت 12 نئے بجلی گھروں کو 2,530 میگاواٹ بجلی کی فراہمی کے اجازت نامے جاری کیے گئے اور انہیں اپنا منافع ڈالرز میں وصول کرنے کی بھی اجازت دی گئی۔
2013 جب نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیر اعظم بنے تو اس وقت پاکستان میں بجلی کی قلت 6ہزارمیگا واٹ سے بڑھ چکی تھی ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے بے شمار صنعتیں بجلی اور گیس کی کمی کی بنا پر بند پڑی تھیں چناںچہ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے نجی شعبے میں مزید نئے بجلی گھروں کے قیام کی منظوری دینی پڑی اور انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ان بجلی گھروں کو مکمل کراکے 2018 تک بجلی کی قلت کے بحران پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا۔ اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ملک میں نجی شعبے میں قائم بجلی گھروں کی تعداد 42ہوچکی ہے اور موجودہ حکومت کی ابھی لوڈ شیدنگ کے مسئلے کا بھی سامنا نہیں ہے۔
اب جبکہ موجودہ حکومت نجی شعبے میں کام کرنے والے بجلی گھروںکی جانب سے کی جانے والی بدعنوانیوں کی تحقیقات کرنے میں مصروف ہے تو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جب بھی ملک میں نجی شعبہ کے سرمایہ کاروںکو بجلی گھر لگانے کی اجازت دی گئی تو وہ اس وقت کی حکومتوں کی مجبوری تھی ملک سے لوشیڈنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نکلنے کے لیے ان کے پاس کوئی دوسر آپشن نہیں تھا جس سے فائدہ اٹھا کر سرمایہ کاروں نے بجلی فروخت کرنے کے لیے مختلف اقسام کے ٹیرف، تیل اور گیس کی کمی یا قیمتوں میں اضافہ پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی وصولی، بجلی نہ حاصل کرنے پر بھی ادائیگی اور اپنے مفاد میں دیگر شرائط معاہدے میں شامل کیں تھیں جن میں کسی بھی کوتاہی کی ذمے دارسرکاری اہلکاروں اور اس وقت کی سیاسی قیادت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت معاہدوں کے بعد کسی قوم کی بے ضابطگی کا تو نوٹس لے سکتی ہے لیکن انہیں معاہدوں کی شرائط میں ردو بدل پر مجبور نہیں کرسکتی ہے اس کے لیے دونوں فریقوں کی رضامندی ضروری ہوگی، بصورت دیگر وہ انٹرنیشنل کورٹس میں بھی جاسکتے ہیں کیونکہ نجی شعبے کے بجلی گھروں کے قیام کے لیے ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نجی شعبہ میں کام کرنے والے بجلی گھروںکے خلاف کسی قسم کی یک طرفہ کارروائی کی بنا پر پاکستان میں آگے چل کر بیرون ملک کے سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی کم ہوسکتی ہے اور وہ پاکستان میں سرمایہ کاری سے ہاتھ روک سکتے ہیں۔ ہم اپنے ملکی قوانین کے مطابق کسی بے ضابطگی کا تو نوٹس لے سکتے ہیں لیکن قاعدے و قوانین کے تحت اگر وہ فائدے اٹھا رہے ہیں تو اس سے کسی قانون کے تحت روکا نہیں جاسکتا ہے۔