ذرائع ابلاغ پھر تنقید کی زد میں

331

وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر ذرائع ابلاغ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور الزام لگایا ہے کہ میڈیا کو کرپشن کے دفاع کے لیے ڈھال بنایا گیا اور پیسہ استعمال ہوا۔ دوسرے لفظوں میں ذرائع ابلاغ بدعنوان عناصر کا دفاع کرتے رہے اور اس کے لیے پیسے بھی وصول کیے۔ کاش عمران خان میڈیا کے ان افراد اور اداروں کا نام بھی لیتے جنہوں نے کرپشن میں تعاون کیا۔ نام تو انہیں ان افراد کا بھی لینا چاہیے جنہوں نے پیسے دے کر میڈیا کو خریدا اور اپنی بدعنوانی کے لیے ڈھال بنایا۔ ایسا نہ ہو کہ وہ مولانا طارق جمیل کی طرح اعتراف کریں کہ ان سے خطا ہوگئی۔ لیکن عمران خان کے پاس تو بہت پہلے سے ان افراد کی طویل فہرست موجود ہے اور وہ معذرت کرنے کے عادی بھی نہیں۔ ظاہر ہے کہ ساری کرپشن، لوٹ مار سابق حکومتوں نے کی ہوگی لیکن اس عمرانی دور میں جو ہوا وہ کیا کم ہے اور اس کا حساب کون دے گا۔ میڈیا تو سابق ادوار میں بھی حکمرانوں کا حتساب کرتا رہا حتیٰ کہ فوجی قبضے کے دوران میں بھی نشاندہی کی جاتی رہی۔ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ بدعنوانی میں کمی نہیں آئی۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ ’’جنہوں نے کرپشن سے پیسہ کمایا وہ آزاد میڈیا سے خوف زدہ ہیں تاہم کوئی کتنا جھوٹ بولے بالاخر عوام سچ ڈھونڈ لیں گے۔‘‘ یعنی انہیں اعتراف ہے کہ میڈیا آزاد ہے۔ ان کی یہ بات بھی صحیح ہے کہ جنہوں نے کرپشن سے پیسہ کمایا وہ خوف زدہ ہیں۔ یہ خوف عمران خان کے دائیں بائیں رہنے والوں کے چہروں سے ظاہر ہے۔ عوام یہ سچ جان چکے ہیں کہ گندم اور چینی کا بحران پیدا کرکے اربوں روپے کا منافع کس نے سمیٹا۔ بات وزیراعظم تک جاتی ہے اور ان کا پسندیدہ وزیراعلیٰ پنجاب وسیم اکرم نمبر دو عثمان بزدار کا کردار بھی عوام کے سامنے ہے۔ خواہ کتنی ہی لیپا پوتی کرلیں، ذرائع ابلاغ پر سب کچھ آچکا ہے۔ گندم، چینی اسکینڈل کی پہلی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم نے فرمایا تھا کہ 25 اپریل کو تفصیلی رپورٹ آنے کے بعد کارروائی ہوگی۔ عمران خان صاحب 25 اپریل گزر گیا۔ اب مزید 15 دن کی مہلت دے دی گئی۔ اس عرصے میں اربوں روپے کی ڈکیتی کے ذمے دار شاید مزید زور لگا سکیں۔ کسی بھی معاملے میں کمیشن پر کمیشن، رپورٹ پر رپورٹ بنانا معاملے کو غتربود کرنا ہے۔ گندم چینی اسکینڈل کی رپورٹ عام کرنے میں تاخیر پر تاخیر کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ اور ابھی تو بجلی کے منصوبوں میں اربوں روپے کی لوٹ مار کی تحقیقات بھی ہونی ہے۔ اس کا الزام چونکہ سابق حکومتوں پر ہے اس لیے ممکن ہے کہ تحقیقات میں تیزی آئے لیکن یہاں بھی ایک رکاوٹ ہے کہ بجلی کے منصوبوں سے عمران خان کے ساتھیوں نے بھی خوب کمایا۔ گندم، چینی اسکینڈل کے کردار تو سب کے سامنے ہیں لیکن سب کو بچانے کے لیے کسی ایک کو قربانی کا بکرا بنایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم کے بقول اگر ذرائع ابلاغ نے بدعنوان عناصر کے لیے ڈھال کا کام کیا اور پردے ڈالے تو اب یہ کام کون کر رہا ہے۔ اگر اتنے بڑے اسکینڈل کے ذمے دار پکڑے نہ گئے تو عمرانی حکومت اور سابق ادوار میں کوئی فرق نہیں رہے گا، بلکہ عمران خان پر زیادہ ذمے داری ہے کہ وہ تبدیلی کا نعرہ لگا کر آئے تھے۔ مہنگائی تو ان کے کنٹرول میں ہے ہی نہیں لیکن اپنے بدعنوان درباریوں کی خبر تو لیں۔عمران خان یہ ضرور یاد رکھیں کہ ان کے دور میں اور ان ساتھیوں کی بدعنوانیوں کا حتساب نہ ہوا تو ان کے درباریوں کی آشفتہ بیانیاں کچھ کام نہیں آئیں گی جو کہتے ہیں کہ ملک میں عمران خان کا متبادل کوئی ہے ہی نہیں، انہیں کسی قسم کا خطرہ نہیں۔ بقول ان کاسہ یسوں کے دوسری جماعتوں کو تو اپنی بقا کی فکر ہے، وہ کیا مقابلہ کریں گی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ دو تہائی اکثریت رکھنے والے بھی دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر کر دیے جاتے ہیں۔ آٹا، چینی اسکینڈل کی تحقیقات کو تاخیری حربوں کا شکار بنایا گیا تو نیا بحران آئے گا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے انتباہ کیا ہے کہ آٹا چینی مافیا کو نہ پکڑا تو بحران ختم نہیں ہوگا، لوگ منتظر ہیں کہ یہ بدمعاش کب پکڑے جاتے ہیں۔