کورونا وائرس سے ابھرنے والا نیا عالمی منظرنامہ

445

ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری
ایسا لگتا ہے کہ کورونا وائرس کی پریشانیوں، ہلاکتوں، تباہیوں اور بربادیوں کے ملبے سے ایک نئی دنیا طلوع ہوگی۔ 80 نینو میٹر (80-nm) کے ایک جرثومے سے بڑی بڑی حکومتوں اور سلطنتوں کی ہیبت اور شان و شوکت زمین بوس ہوتی نظر آرہی ہے۔ طاقتور کرنسیاں جنہوں نے غریب ممالک کو قرضوں میں جکڑ کر محکوم بنایا ہوا ہے، کمزور ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ معیشتوں کا کھوکھلا پن سامنے آرہا ہے۔ تیل کے ذخائر پر قبضہ کر کے دنیا کو زیر و زبر کرنے والے اب خود زیر و زبر ہورہے ہیں۔ دوسری طرف لاک ڈائون کے باعث لوگوں کی نقل و حرکت محدود ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں نئے نئے رجحانات تقویت پکڑ رہے ہیں۔ گھروں سے کام (Work for Home) کا سلسلہ بڑھ رہا ہے۔ اس کے لیے قواعد و ضوابط طے کیے جارہے ہیں۔ اس کے فائدے اور نقصانات کا تجزیہ کیا جارہا ہے۔ مزید یہ کہ آن لائن میٹنگز اور ویڈیو کانفرنسنگ کو متبادل کے طور پر اختیار کیا جارہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ موثر و مفید متبادل کے طور پر سامنے آتا ہے تو سفر اور قیام و طعام جیسے اخراجات کم ہوجائیں گے۔ دوسرے الفاظ میں ائر لائن انڈسٹری اور ہوٹلنگ انڈسٹری محدود ہوجائے گی۔ ویسے بھی اس وقت امریکا کی تین ائرلائنز کی بقا خطرے میں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے روزگار کے مواقعے کم ہوں گے۔ تعلیمی شعبے میں آن لائن کلاسز جو پہلے محدود سطح پر ہورہی تھیں اب یہ سلسلہ وسیع ہوگیا ہے۔ جس میں کلاسوں کے علاوہ امتحانات بھی آن لائن لیے جارہے ہیں۔ ورچول ایجوکیشن کا نظریہ زور پکڑ رہا ہے۔ مالیاتی سیکٹر میں بھی ہر طرح کا لین دین آن لائن ہورہا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ مختلف عالمی مالیاتی ادارے دنیا بھر میں شدید معاشی و اقتصادی بحران کے اندازے لارہے ہیں۔ مالی معیشت کا حجم بجائے بڑھنے کے چار سے پانچ فی صد سکڑنے کا امکان ہے جس سے کروڑوں لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔ عالمی سطح پر غربت، بھوک اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا اس کو ٹالنے کے لیے امریکا نے اپنے ملک کے بچائو کے لیے 9 کھرب ڈالر اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک نے مجموعی طور پر 3 کھرب ڈالر اپنی معیشتوں کو بچانے کے لیے امداد کا اعلان کیا ہے۔ جب کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) یہ خبر بھی دے رہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کو ختم ہونے میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے اور اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ دنیا میں متاثرین کی تعداد 30 لاکھ اور ہلاکتوں کی تعداد 2 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔
پاکستان میں ابھی تک لاک ڈائون کے معاملے پر یکسوئی قائم نہیں ہوسکی۔ ڈاکٹروں کا انفرادی طور پر اور میڈیکل ایسوسی ایشنز مجموعی طور پر سخت لاک ڈائون کے حق میں ہیں۔ علما کرام کا مطالبہ ہے کہ رمضان المبارک میں افطار، تراویح اور جمعتہ المبارک میں مذہبی سرگرمیاں بحال ہونی چاہئیں۔ تاجر اور صنعت کار اپنے کاروبار کھولنے کے لیے بے تاب ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ رمضان المبارک اور اس کے بعد عیدالفطر سے بے شمار معاشی اور کاروباری سرگرمیاں جڑی ہوئی ہیں اور اس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ جو لوگ گزشتہ ایک ماہ کے لاک ڈائون سے معاشی طور پر بُری طرح متاثر ہوئے ہیں انہیں آگے بھی حالات بُرے نظر آرہے ہیں۔ سندھ میں جگہ جگہ غریب لوگ راشن نہ ملنے پر احتجاج کررہے ہیں اور سڑکیں بلاک کررہے ہیں اور سندھ میں راشن کی تقسیم پر سپریم کورٹ نے بھی اعتراضات اُٹھائے ہیں۔
پاکستانی حکومت کو اس موقع پر عوام کو ریلیف دینے اور اپنی کارکردگی منوانے کا اچھا موقع ہے۔ ایک طرف سے عالمی مالیاتی ادارے امداد دے رہے ہیں، آئی ایم ایف نے بھی حال ہی میں 1.39 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کو ٹرانسفر کیے ہیں۔ دوسرے عالمی طور پر تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث پاکستان کو 4 سے 5 ارب ڈالر کی بچت ہورہی ہے۔ تیسرے اس سال جو بیرونی قرضے ادا کرنے تھے ان کا بوجھ ایک سال کے لیے ٹل گیا ہے۔ اسلامی ترقیاتی بینک نے بھی 65 کروڑ ڈالر کا اعلان کیا ہے۔ ایسے میں باآسانی غریب، بے روزگار اور مستحق خاندانوں کو نقد امداد اور کھانے پینے کے سامان پہنچایا جاسکتا ہے اور پٹرول اور ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی جاسکتی ہے۔
غریب اور مستحق خاندانوں تک امداد و راشن کی فراہمی ایک دقت طلب کام ہے جس کے لیے انتہا درجے کی تنظیم، محنت اور اخلاص کی ضرورت ہے۔ یہ نہ ہو تو بھوکے لوگوں کے ہجوم کے ہجوم جمع ہوجاتے ہیں، کم ہی لوگوں کو کچھ مل پاتا ہے، زیادہ تر لوگ زخموں اور تھکاوٹ سے چور واپس لوٹ جاتے ہیں جب کہ پاکستان میں امداد کی تقسیم پر کم اور فوٹو سیشن پر زیادہ زور ہے۔