عطا محمد تبسم
پاکستان میں غربت، عدم مساوات اور غلط طرز حکمرانی کے لامتناہی سفر کے خاتمے کے لیے اہم رکاوٹوں کو عبور کرنا ہوگا۔ حکمرانی کے تمام شعبوں کو مکمل طور پر ڈیجیٹل بنانا اور اس کی غیر فعال بیوروکریسی میں کمی کرنا۔ ہمیں کرونا۔19 کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے تیسرے کام کو سب سے پہلے انجام دیا ہے۔ گویا حکومتی مشنری 20 سیکنڈ کے صابن حملے کی زد میں آنے والے ایک وائرس کی طرح تھی۔ جو، 7 دن سے بھی کم وقت میںعملی طور پر تحلیل ہوکر رہ گئی، اور تاش کے پتوں کی طرح بکھر کر رہ گئی ہے۔
فولاد کی طرح اکٹری ہوئی بیوکریسی مشینری جس نے 72 سال سے، ترقی کے لیے ہر راستے کو مسدود کر رکھا ہے۔ ایک معمولی جھلی میں لپٹے جرثومے سے شکست کھا گئی ہے۔ پاکستان کو اپنے عام فراموش کردہ شہریوں کے لیے مدد اور چیزوں کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت کا احساس ہوا ہے۔ اس نے کافی فنڈز اور نیک توقعات جمع کیں ہیں۔ یہ دونوں ضروری چیزیں ہونے کے باوجود کافی نہیں ہیں۔ اس کی وجوہ بالکل سادہ ہیں۔ پاکستان کو ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ اس کے عام لوگ کون ہیں، ان کے نام کیا ہیں، وہ کہاں رہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، اس کے پاس 60 ملین غیر رجسٹرڈ بچوں کے وجود کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ اسے تو اس بات کا بھی علم نہیں کہ اس کے 25 ملین بچے جو اسکول کے نام سے بھی نا آشنا ہیں، کون سے ہیں اور وہ کہاں رہتے ہیں۔ یہ نہیں جانتا کہ اس کے بے گھر، بے روزگار، دہاڑی مزدور، گلیوں میں پھیری لگانے والے، پلمبر، معمار، چوکیدار، بس ڈرائیور، گھریلو ملازمین، کیشئرز، اسٹریٹ چلڈرن اور مدد کے طالب دیگر افراد، کون ہیں، کتنے ہیں اور کہاں ہیں۔ وہ جو گھر سے کام نہیں کرسکتے ہیں۔
اندھیر نگری اور معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ ہمیں حقائق کا علم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اعداد و شمار ہمارے پاس ہیں۔ پاکستان 72 برسوں سے ایک ’ڈیٹا لیس‘ اعداد وشمار سے محروم سوسائٹی رہا ہے۔ ہمارے ڈیجیٹل طور پر چیلنج شدہ بیوروکریسی نے پاکستان کو فارم اور فائلوں، فوٹو کاپیوں اور حلف ناموں، دستخطوں اور ٹکٹوں میں الجھایا ہوا ہے۔ آسان الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ ڈیجیٹل ایج کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس طرح پاکستان کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے۔ اس کی طرز حکمرانی اور عمل میں بنیادی تبدیلیاں کریں یا تاریخ کو فراموش کردیں۔
اگرچہ سیل فون ’ایپس‘ ایک محدود تجارتی یا ٹاسک پر مبنی فنکشن کا استعمال کرسکتا ہے، لیکن وہ قومی ڈیجیٹائزیشن پروگرام کے متبادل نہیں ہیں۔ پاکستان کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ذریعہ انجام دیے جانے والے ہر فنکشن کے لیے ڈیجیٹل، مربوط اور مشترکہ ڈیٹا بیس عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ اس کا تعلق اساتذہ اور طلبہ، پیدائش اور اموات، کارکنوں اور آمدنی، زمین و محصول، ٹیکس اور لین دین، تنخواہوں اور پنشن، صنعت اور کارکنوں اور صحت اور اسپتالوں سے ہوسکتا ہے۔ ان کاموں کی فہرست لامتناہی ہے۔
حکومت کو ڈیجیٹلائزیشن کے تین بنیادی اصولوں کو عوامی طور پر مشتہر کرنا چاہیے۔ پہلی بات تو یہ کہ، کسی بھی شہری کو کسی بھی خدمت، اجازت، منظوری، لائسنس، دستاویز یا ادائیگی دینے یا وصول کرنے کے لیے کسی سرکاری دفتر جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ دوسرا یہ کہ کسی بھی سرکاری دفتر کو دی جانے والی کسی بھی معلومات کو ریاست کے کسی دوسرے دفتر سے طلب یا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ تیسرا یہ کہ کسی کو بھی کسی دفتر میں، سی این آئی سی، ڈگری، نکاح نامہ، تصدیق نامہ یا حلف نامہ کی کاپی پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
بیوروکریسی میں کمی کرنے کا پہلے قدم کے طور پر، پاکستان کو گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو آدھا کرنا چاہیے اور انہیں ملازمت چھوڑنے کا آپشن دینا چاہیے۔ محض ان سرکاری ملازمین کے لیے مختص سرکاری گاڑیوں کو فروخت کرنے سے تقریباً 200 ارب روپے آسانی سے مل جائیں گے، اس کے بجائے، ہزاروں آئی ٹی فارغ التحصیل افراد کو ملازمت دی جائے اور سیکڑوں نئے پیپر لیس اور ’بیوروکریسی لیس‘ مربوط ڈیجیٹل طریقہ کار تیار کرنے کے لیے ایک قومی آئی ٹی تنظیم تشکیل دی جائے۔
ہماری حکومت اگلے چند ہفتوں میں جو فیصلے کرے گی۔ اس سے آئندہ برسوں کے لیے ہمارے ملک کی تشکیل نو ہوگی۔ ہمیں جلد اور فیصلہ کن اقدام کرنا چاہیے۔ نئے نظام کو معاشرے کے ہمارے سب سے نظرانداز، بے وسیلہ اور کمزور طبقے کی زندگیوں کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ بیوروکریسی اور رکاوٹیں پیدا کرنے والے عناصر کا خاتمہ کورونا 19 کے بعد، پاکستان کی اولین ترجیحات ہونی چاہئیں۔ بہر حال، ہزار برس قبل موجود شہروں کے مبہم اور قدیم خیالات پر ایک جدید ریاست تعمیر نہیں کی جاسکتی ہے۔