ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کیسے کریں؟اداروں کےسربراہان سر جوڑ کر بیٹھ گئے

551

کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری)لاک ڈاؤن کے باعث بلدیاتی اداروں کو ملازمین کی تنخواہوں کے لالے پڑ گئے۔کے ایم سی،ڈی ایم سیزسمیت کراچی واٹر ایند سیوریج بورڈ اور کے ڈی اے کی آمدنی صفر ہوگئی۔

ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کیسے کریں تمام اداروں کے سربراہان اور افسران سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔

میئر کراچی نے فائر فائٹرز کو رسک الاونس کی ادائیگی کے لئے محکمہ انجینئرنگ کے بجٹ سے ادئیگی کرنے کی ہدایت دے دی ہیں۔جبکہ کے ڈی اے اور واٹر بورڈ نے سندھ حکومت سے مالی مدد کی درخواست کردی۔

تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے شہر میں بلدیاتی امور سمیت فراہمی ونکاسی آب کے کام بند ہونے کا خدشہ ہے۔

تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ کا صوبے میں کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لئے لگایا گئے لاک ڈاؤن نے بلدیاتی اداروں سمیت دیگر سرکاری اور نجی اداروں کو شدید مالی بحران میں مبتلہ کردیا ہے۔

23مارچ سے جاری لاک ڈاؤن کےباعث کے ایم سی،ضلعی بلدیاتی اداروں،کے ڈی اے اور واٹر بورڈ کی آمدنی صفر ہوگئی ہے جس کے باعث مذکورہ اداروں کو ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگی کے لالے پڑ گئے ہیں۔

میئر کراچی نے محکمہ مالیات کو فائرفائٹرز کے شدید احتجاج کے بعد فائرفائٹرز کو فائر رسک الاونس کی ادائیگی کے لئے محکمہ انجینئرنگ کے بجٹ سے اداکرنے کی ہدایت دی ہیں۔

تاہم کے ایم سی کو پیٹرول اور ڈیزل فراہم کرنے والے ریکس اور نور پمپس کے واجبات کی ادائیگی ناہونے کی وجہ سے مذکورہ پمپس مالکان نے کے ایم سی کو ایندھن کی فراہمی بند کر رکھی ہے۔

ذرائع کے مطابق کے ایم سی کو ریکس پیٹرول پمپ کے پیٹرول کی مد میں ایک کڑوڑ روپے جبکہ نور پیٹرول پمپ کو ڈھائی کڑوڑ روپے ادا کرنے ہیں مگر لاک ڈاون کی وجہ سے کے ایم سی کو ٹیکس اور فیسیوں کی مد میں آمدنی ناہونے کی وجہ سے پیٹرول پمپ مالکان کو ادائیگی نہیں کی گئی۔

جبکہ ملازمین کی ماہ اپریل کی تنخواہیں ادا کرنے کے لئے بھی کے ایم سی کے پاس فنڈ موجود نہیں ہیں یاد رہے کے ایم سی کو ملازمین کی تنخواہوں کے لئے تقریبا62کروڑ روپے درکار ہوتے ہیں۔

جس میں سے سندھ حکومت 59کڑوڑ روپے گرنٹ کی مد میں کے ایم سی کو دیتی ہے جبکہ تنخواہوں کی مد میں کے ایم سی کو ماہانہ ڈیڑھ کڑوڑ روپے کمی کاسامنا ہے جبکہ رواں ماہ لاک داون کی وجہ سے کے ایم سی کی آمدنی بھی صفر پر آگئی ہے۔

جس کے بعد ماہ اپریل کی تنخواہوں کو پورا کرنے کے لئے حکام سرپکڑ کر بیٹھ گئے ہیں اسی طرح ضلعی بلدیاتی اداروں کے حکام بھی آمدنی ناہونے کی وجہ سے ماہ اپریل میں ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے فکر مند ہیں۔

دوسری جانب ادارہ ترقیات کراچی نے بھی لاک ڈاون کے باعث آمدنی ناہونے کی وجہ سے حکومت سندھ کو فوری طور پر ملازمین کی تنخواہوں کے لئے 33کڑوڑ روپے جاری کرنے کی درخواست کی ہے جبکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے بھی حکومت سندھ کو ملازمین کی تنخواہوں کے لئے ایک ارب پچاس کروڑ روپے گرانٹ دینے کے لئے درخواستیں کی ہیں۔

تاہم ذرائع کے مطابق کے ڈی اے اور واٹر بورڈ کی گرانٹ کے لئے بھیجی گئی سمری سیکرٹری بلدیات نے منظوری کے لئے ایک ہفتے قبل وزیر بلدیات کو بھیجی تھی تاہم وزیر بلدیات نے تاحال سمری منظور نہیں کی ہے۔

واضح رہے کے ڈی اے کو ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کی مد میں 33کڑوڑ روپے درکار ہوتے ہیں جس میں سے حکومت سندھ 20کڑوڑ 40لاکھ روپے ہر ماہ کے ڈی اے کو دیتی ہے جبکہ 13کڑوڑ کے ڈی اے اپنی آمدنی سے ملا کر تنخواہیں ادا کرتا ہے۔

مگر23مارچ سے جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے کے ڈی اے کی آمدنی بھی دیگر اداروں کی طرح صفر ہوچکی ہے جس کے باعث کے ڈی اے ملازمین کو مارچ کی تنخواہ تاحال ادا نہیں کرسکا ہے۔

مالی مشکلات کے باعث ڈی جی کے ڈی اے نے حکومت سندھ سے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے 33کڑوڑ روپے گرانٹ کی درخواست کی ہے۔

دوسری جانب واٹر بورڈ نے بھی دوہفتے قبل حکومت سندھ کو ملازمین کی مارچ اور اپریل کی تنخواہوں کی ادائیگی سمیت دیگر ضروری کاموں کے لئے ایک ارب پچاس کڑوڑ روپے گرانٹ جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔

ذرائع کے مطابق دونوں اداروں کی گرانٹ کے لئے بھیجی گئی سمری سیکرٹری بلدیات نے منظوری کے لئے وزیربلدیات کوبھیج دی ہیں تاہم وزیر بلدیات نے تاحال دونوں اداروں کو گرانٹ کی منظوری نہیں دی ہے۔