آٹا چینی چوروں کا تحفظ

378

پاکستانی قوم اس انتظار میں تھی کہ 25 اپریل کو رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی انہیں ملک میں آٹا چینی چوروں کے بارے میں پتا چلے گا لیکن لاک ڈائون کی مدت میں توسیع کی طرح ایف آئی اے کو حتمی رپورٹ کے لیے بلا وجہ دو ہفتے کی مہلت دے دی گئی یعنی اب 9 مئی کو رپورٹ آئے گی۔ فارنزک آڈٹ ٹیم میں دو افسران کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جس روز ایف آئی اے نے رپورٹ جاری کی تھی اسی روز اگر آٹا، چینی اسکینڈل کے ذمے داران کے خلاف کارروائی کر لی جاتی تو کیا فرق پڑ جاتا۔ حکومت کو چند وزرا سے محروم ہونا پڑتا لیکن اب تو یہ یقین ہوتا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت اس مافیا کے بل پر ہی چل رہی ہے اس لیے اس پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت بھی نہیں ہورہی۔ جس روز وزیراعظم نے فارنزک رپورٹ اور 25 اپریل کی تاریخ دی تھی اسی وقت یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ معاملہ غت ربود ہو جائے گا اب مزید دو ہفتے کی مہلت اور دو افسران کی ٹیم میں شمولیت بھی یوں ہی نہیں کی گئی ہوگی اس سے بھی کسی نہ کسی کو فوائد پہنچائے جائیں گے۔ جب بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں تو پھر موازنہ بھی کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے آٹا، چینی مافیا کے نام معلوم ہیں لیکن انہوں نے رپورٹ آنے کے باوجود کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ ان کے قول اور عمل میں تضاد یہ ہے کہ ایک رپورٹ میں جنگ جیو کے مالک کا نام آنے پر انہیں گرفتار کرلیا گیا لیکن اپنے پیاروں کا نام آنے پر پہلے فارنزک رپورٹ پھر دو ہفتے کی مہلت کیوں دی… ان لوگوں کو بھی رپورٹ آتے ہی گرفتار کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب تو لگ رہا ہے کہ دو ہفتوں بعد بھی مزید مہلت دی جائے گی۔ جو بھی الٹ پھیر کرنا ہوگا کر لیا جائے گا۔ بڑا چور معمولی نکلے گا اور نئے چوروں سے ملاقات ہو جائے گی۔ اس ڈھٹائی پر کیا تبصرہ کیا جائے کہ چوروں کا وزن ساتھ اٹھائے پھرنے والے وزیراعظم فرما رہے ہیں کہ قومی وسائل کو اشرافیہ کے چنگل سے چھڑانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 24 برس قبل سیاسی جدوجہد شروع کرنے کا مقصد نادار شہریوں کو غربت سے نجات دلانا اور قانون کی بالادستی تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کی جدوجہد کسی بھی سیاسی جماعت کی جدوجہد سے زیادہ طویل، کٹھن اور صبر آزما رہی ہے۔ عمران خان صاحب قومی وسائل جس اشرافیہ کے چنگل میں ہیں وہ تو آپ ہی کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں۔ ان سے کیسے نجات حاصل کی جائے گی۔ آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد کا جو مقصد بیان کیا ہے وہ نادار شہریوں کو غربت سے نجات دلانا تھا۔ تو کیا آپ اس میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ 18 ماہ میں تو ناداروں کی تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے بلکہ ان کا پورا پروگرام قوم میں بھکاریوں کی تعداد بڑھانے کا لگتا ہے۔ صنعتیں بند، ملازمتوں کے دعوے سے یو۔ٹرن۔ مکانات بنا کر دینے کا وعدہ ہوا میں اڑ گیا، بس احساس پروگرام چل رہا ہے اور ایسے بے حس لوگوں کے ہاتھ میں چل رہا ہے جو غریب عورت کو 12 ہزار روپے دے کر کہتے ہیں ذرا گن کر دکھائو… یعنی غرببت کا مذاق اڑا کر اس کی عزت نفس کو بھی تار تار کیا جا رہا ہے۔ ان کے سیاست کے مقاصد کا دوسرا حصہ قانون کی بالادستی تھا۔ تو یہ حصہ بھی اب تار تار ہو چکا ۔ قانون کا استعمال صرف سیاسی مخالفین اور کمزور کے خلاف ہو رہا ہے۔ آٹا، چینی چوروں کے لیے رعایتیں ہیں۔ سانحہ ساہیوال ہو یا کوئی بھی واقعہ کمزور اور غریب کے لیے الگ قانون ہے اور اشرافیہ کے لیے الگ۔ اگر وزیراعظم اپنے دعوے میں سنجیدہ ہیں کہ قومی وسائل کو اشرافیہ کے شکنجے سے چھڑائیں گے تو وہ سب سے پہلے آٹا، چینی چور اشرافیہ سے خود جان چھڑائیں۔ لیکن کیا ایسا ہو سکے گا؟ دراصل یہ وہ پیمانے ہوتے ہیں جن سے لوگوں کوپہچانا جاسکتا ہے اور وزیراعظم اپنے دعووں اور عمل کی میزان میں بہت اچھی طرح پہچانے جا چکے ہیں۔ ان کے لیے اب کسی تحقیقات اور کسی فارنزک رپورٹ کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک تحریک انصاف کی جدوجہد کے کسی بھی سیاسی جماعت سے زیادہ طویل، کٹھن اور صبر آزما ہونے کے دعوے کا تعلق ہے تو اس دعوے کا دور دور تک حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ تحریک انصاف کا قیام اس کو گودوں اور ہاتھوں ہاتھ چلانے والی نامعلوم قوتوں کی کہانی۔ جنرل احمد شجاع پاشا کی سرپرستی۔ 2018ء کے انتخابات کا جادو ان سب میں کہیں بھی کٹھنائیاں اور صبر کے مراحل نہیں ہیں۔ کسی سیاس جماعت سے موازنہ کرنے کی ضرورت نہیں لیکن تحریک انصاف نے سیاسی جدوجہد کی ہی نہیں ہے۔ ہاں اب وقت آنے والا ہے جب وہ اقتدار میں نہیں ہوں گے اور اپنے دور اقتدار کا حساب دے رہے ہوں گے۔ اس وقت تو ان کے دور اقتدار کے سبب عوام کی زندگی کٹھن اور صبر آزما بنی ہوئی ہے۔