مساجد کے لیے ایس او پیز رمضان نشریات کو کھلی چھوٹ

523

محمد اکرم خالد
رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی ایک بار پھر وفاق کی جانب سے لاک ڈائون میں 9 مئی تک کی توسیع کر دی گئی ہے اس بار اس لاک ڈائون کو وزیر اعظم کی جانب سے اسمارٹ لا ک ڈائون کا نام دیا گیا ہے جس میں کاروبار کو محدود رکھتے ہوئے احتیاط کے ساتھ چلایا جائے گا اس اسمارٹ لاک ڈائون کا اطلاق پاکستان کے تین صوبوں میں تو ہوگیا ہے جبکہ سندھ سرکار روایتی طور پر ایک بار پھر وفاق کے فیصلوں کے خلاف گئی ہے بد قسمتی سے صدر پاکستان اور تمام علماء کرام کی مشاورت سے رمضان المبارک میں خاص عبادتوں کے حوالے سے ایک ایس او پی طے کیا گیا تھا اس کا بھی اطلاق تین صوبوں پر ہورہا ہے جبکہ عوام دشمن، مذہب دشمن، سندھ حکومت اس کو بھی ماننے سے انکاری ہے اور اس وقت اس مقدس ماہ میں کراچی کی بڑی بڑی مساجد ویران نظر آرہی ہیں۔ بڑی معذرت کہ ساتھ جو میڈیا صبح شام اس قوم کو کورونا وائرس سے بچائو کی تاکید کر رہا ہے جو ان کو بھوک پیاس کے ساتھ بھی گھروں میں رہنے کی داستان سنا رہا ہے، صفائی اور سماجی فاصلہ رکھنے کی درخواست کر رہا ہے، مساجد میں نہ جانے کے لیے حدیثوں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے، ڈاکڑ حضرات کی درد بھری پریس کانفرنس کی روشنی میں عوام کو گھروں میں رہنے کی تاکید کر رہا ہے، تراویح کے معاملے پر علماء کرام کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
مگر خود ان تمام احتیاطی تدابیر کا جنازہ نکلتے ہوئے اپنے چینل کی ریٹنگ کو بڑھانے کے لیے ہر سال کی طرح رمضان نشریات کا ویسا ہی انتظام کیا گیا ہے جس میں عوام کی شرکت کو یقینی بنایا گیا ہے احتیاطی تدابیر اور سماجی فاصلے کا جنازہ نکل دیا گیا ہے تراویح اور باجماعت نماز کے لیے تو پھر چھ فٹ کا فاصلہ رکھا گیا تھا مگر رمضان نشریات میں عوام کو کندھے سے کندھ ملاکر بٹھایا گیا ہے وہ بڑے بڑے ٹی وی چینلز جو صبح سے شام تک لوگوں کو کاروبار سے گھروں سے مساجد میں جانے سے روکنے کا درس دیتے رہے ہیں آج خود ہی اپنے چینلز کی ریٹنگ بڑھانے کی دوڑ میں احتیاطی تدابیر کا بڑے دھوم سے جنازہ نکال رہے ہیں جس میں وہ علماء کرام بھی شامل ہیں جو اپنی مساجد کو تالا لگا کر رمضان نشریات کا بھر پور انداز میں حصہ بنے ہوئے ہیں۔
ہم یہاں ہر گز رمضان نشریات کے خلاف نہیں ہیں اگر یہ نشریات بے حیائی سے پاک ہے تو ان نشریات کی وجہ سے دنیا بھر میں ہم اپنے مذہب کی رمضان المبارک کی برکت سے دنیا بھر کو اسلام کی دعوت دینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں ہم ان نشریات کے ذریعے رمضان کی برکتوں اس کے فضائل کو بھر پور انداز سے سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ مگر یہ سب اُس وقت اچھا لگتا ہے جب ہر سال کی طرح ہماری مساجد آباد رہتی ہیں تراویح اور عبادتیں کا سلسلہ جاری ہوتا ہے ایک جانب ہم کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی مساجد کو بند کر رہے ہیں احتیاطی تدابیر اور سماجی فاصلے کی بنیاد پر چند لوگوں کو نماز تراویح کی اجازت دی جارہی ہے تو دوسری جانب رمضان نشریات میں ان تمام احتیاطی تدابیر کی دھجیاں اُڑا کر ہم اس قوم کو اور دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔
سندھ حکومت نے تو ہٹ دھرمی کی انتہا کر دی ہے کبھی اس انداز میں شراب خانے جوئے اور بے حیائی کے اڈاے بند کرنے کی جرات نہیں کی گئی جس طرح سندھ حکومت مساجد اور غریب عوام کے روزگار کو بند کرانے کی جدوجہد کر رہی ہے مگر ان کو ریلیف فراہم کرنے کے نام پر سیاست کی جارہی ہے سندھ حکومت بے بنیاد دعوے کر رہی ہے کہ ہم نے یونین کونسل کی سطح پر راشن کی تقسیم کو ممکن بنایا ہے جبکہ عوام سندھ حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں یہ سندھ کا آج کا رویہ نہیں ہے گزشتہ بارہ سال سے یہ شہر اس ناانصافی کا رونا رو رہا ہے۔
ہم یہاں وزیر اعظم علماء کرام ٹی وی مالکان اور خاص کر اُن اینکر حضرات سے گزارش کرتے ہیں جو صبح شام اپنے چینل سے عوام کو احتیاطی تدابیر سماجی فاصلے کا درس دیتے رہے ہیں جس کی آج وہ خود خلاف ورزی کر رہے ہیں یہ وقت علماء کرام کے لیے لمحہ فکر ہے کہ اُن کی موجودگی میں اللہ کے گھر مساجد تو ویران کر دی گئی ہیں مگر رمضان نشریات بغیر کسی رکاوٹ کے آباد ہوگئی ہیں جہاں احتیاطی تدابیر سماجی فاصلے کا کوئی تصور موجود نہیں شوبز کے وہ حضرات جو پورا سال بے حیائی کے کام انجام دے کر اس نوجوان نسل کو برباد کرنے کے ذمے دار ہیں ان خواتین و حضرات کے ہاتھوں میں اس مقدس ماہ کے فضائل کی باگ دوڑ تھما دی جاتی ہے۔ جبکہ ان نشریات کی میزبانی ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے جو قوم کو درست سمت کا تعین کرا سکیں۔
یہاں ارباب اختیار کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس ملک و قوم کو کس جانب لے جارہے ہیں اس وقت وطن عزیز اللہ کی ناراضی کا سبب بنا ہوا ہے بے حیائی کو عام اور مساجد کو ویران کر دیا گیا ہے لوگ اس وائرس سے ہلاک ہو رہے ہیں اور ہم ان وائرس پر گانے بنا کر اُن لوگوں کی دل آزاری کر رہے ہیں جن کے پیارے اس وبا سے مارے گئے ہیں خدارا اس وبا کے بعد بھی ہم اگر سنجیدہ فیصلے کرنے سے قاصر رہے تو شاید پھر ہم کبھی بھی سنبھل نہیں پائیں گے۔ رمضان نشریات میں علماء کی شرکت کو لازم بنایا جائے اس پلیٹ فارم سے تضاد پیدا نہ کیا جائے کہ مساجد پر پابندی اور رمضان نشریات میں عوام کی شرکت کو آزادی یہ رویہ درست نہیں، جس طرح مساجد کے لیے ایس او پیز بنائی گئی ہیں اسی طرح رمضان نشریات کو بھی ایک ایس او پیز کے تحت چلایا جائے۔