بھارتی مسلمان کہاں جائیں؟

757

حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں صدیوں سے آباد مسلمان برصغیر کی تقسیم کے بعد ہی سے مشکلات کا شکار چلے آرہے ہیں۔ ابتدا میں ہندو اکثریت ان پر اس قدر مشتعل تھی کہ انہوں نے تحریک پاکستان کے زمانے میں مطالبہ پاکستان کا ساتھ دیا اور ان کی زبان پر بھی ’’پاکستان کا مطلب کیا۔ لاالٰہ الااللہ‘‘ کا نعرہ گونجا کرتا تھا حالاں کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ ہندو اکثریت کے علاقے میں رہتے ہیں پاکستان بنا تو مسلم اکثریت کے علاقے میں بنے گا اور وہ ہندو اکثریت کے ساتھ ہی رہنے پر مجبور ہوں گے لیکن اُس وقت پاکستان کے حق میں ایک ایسی جذباتی فضا پیدا ہوگئی تھی کہ برصغیر میں رہنے والا مسلمان اس کا حامی نظر آرہا تھا۔ اگرچہ مولانا ابوالکلام آزاد اور علمائے دیوبند نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی اور اسے برصغیر کے مسلمانوں کے اجتماعی شعور اور تہذیبی غلبے کے منافی قرار دیا لیکن ان کی نہیں سنی گئی۔ اور تحریک پاکستان مسلمانوں کی وسیع تر حمایت کے سبب ان کانگریسی علما کے موقف پر غالب رہی۔ پاکستان بن گیا تو بھارت میں آباد مسلمانوں کو ہندوئوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا پڑا۔ وہ مسلمانوں کو یہ طعنہ دینے لگے کہ پاکستان بنایا ہے تو پاکستان جائو یہاں تمہارا کیا کام ہے؟ اس میں شبہ نہیں کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت جو فسادات پھوٹے، ان میں بہت سے مسلمانوں کو پاکستان ہجرت بھی کرنا پڑی لیکن اکثریت کے لیے نہ پاکستان ہجرت کرنا ممکن تھا اور نہ ہی وہ ایسا کرنا چاہتی تھی۔ مسلمان بدلے ہوئے حالات میں بھارت کے پرامن، قانون پسند اور وفادار شہری کی حیثیت سے رہنا چاہتے تھے۔ ان کے اکابرین کا کہنا تھا کہ ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر نئے سفر کا آغاز کیا جائے اور بھارتی مسلمانوں کی اپنے ملک سے وفاداری کو مشکوک نہ سمجھا جائے لیکن ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی اور ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنے دل میں جو گانٹھ باندھ لی تھی وہ نہ کھل سکی اور روز بروز ان کے مسلمانوں کے خلاف جذبات میں شدت آتی گئی۔
آل انڈیا کانگریس بھارت کی بانی جماعت تھی وہ بھارت پر کم و بیش چالیس سال تک بلاشرکت غیرے حکومت کرتی رہی اس جماعت میں چوں کہ مسلم اکابرین کی ایک قابل ذکر تعداد موجود تھی اس لیے اس جماعت کی ہندو قیادت میں بھی مسلمانوں کے لیے ایک مروت پائی جاتی تھی لیکن یہ کانگریس کی اولین ہندو قیادت کا ذکر ہے اس زمانے میں مسلم اکابرین کو بھی حکومت میں اہم عہدے تفویض کیے گئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نہرو کابینہ میں وزیر تعلیم تھے۔ ان کے علاوہ بھی کئی مسلمان اہم عہدوں پر فائز تھے۔ اگرچہ اس زمانے میں بھی سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا آبادی کے اعتبار سے کوٹا بہت کم تھا لیکن پھر بھی ان کی نمائندگی نظر آتی تھی۔ عام ہندو بھی اتنا متعصب نہ تھا۔ دہلی، الہ آباد، لکھنو، مراد آباد یہاں تک کہ کلکتہ اور ممبئی میں بھی ہندو اور مسلمانوں کی ملی جلی بستیاں تھیں اور وہ ایک دوسرے کے پڑوس میں امن و سکون سے رہ رہے تھے ان کے درمیان سماجی تعلقات قائم تھے وہ ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات میں شریک ہوتے اور شادی بیاہ کے موقع پر آپس میں تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے تھے لیکن کانگریس کی بزرگ قیادت کے خاتمے اور کانگریس کے مسلسل زوال کے بعد ہندو انتہا پسندوں کی بن آئی اور وہ بھارت کی سیاست پر چھا گئے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور دشمنی کو اپنی سیاست کا حربہ بتایا اور عام ہندو آبادی میں اتنا زہر بھر دیا کہ وہ اب مسلمانوں کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔
مسلمانوں سے دشمنی کا اندازہ صرف اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جس شخص نے بطور وزیراعلیٰ ریاست گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اور گجرات کا قسائی کہلایا تھا اسے ہندو اکثریت نے وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز کردیا اور ایک بار نہیں انتخابات کے ذریعے دوسری بار بھی اسے اس منصب سے نوازا گیا اور وہ پوری قوت کے ساتھ مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے کے ایجنڈے پر کام کررہا ہے۔ اس کی جماعت بی جے پی بھارت کو کٹر ہندو اسٹیٹ بنانا چاہتی ہے اس کے لیے اس نے ’’ہندوتوا‘‘ کا نظریہ اپنایا ہے جس کا مطلب ہے دیش میں موجود ہر شے کو ہندومت کے قالب میں ڈھالنا، اس کا اطلاق سب سے پہلے انسانوں
پر ہوتا ہے یعنی بھارت میں آباد جو لوگ ہندو نہیں ہیں انہیں ہندو بنانا۔ اس کی پہلی زد مسلمانوں پر پڑتی ہے۔ بی جے پی کے لیڈر بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر مسلمان بھارت میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ہندو بن کر رہنا ہوگا۔ ورنہ وہ بھارت سے چلے جائیں۔ اس مقصد کے لیے وہ مختلف حکمت عملی پر کام کررہے ہیں ایک حکمت عملی یہ ہے کہ مسلمانوں کو ترغیب اور تربیت کے ذریعے ہندو بنایا جائے۔ اسے ’’گھر واپسی تحریک‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ہندو لیڈروں کا کہنا ہے کہ ان مسلمانوں کے آبائو اجداد اصل میں ہندو تھے جب غیر ملکی مسلمان ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تو انہوں نے زبردستی یہاں کے باشندوں کو اپنا مذہب چھوڑنے اور مسلمان ہونے پر مجبور کردیا۔ اب بھارت میں ہندوئوں کی حکومت ہے تو ان مسلمانوں کو اپنے گھر یعنی ہندو مذہب میں واپس آجانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے مسلمانوں کو لالچ بھی دیا جاتا ہے اور ڈرایا بھی جاتا ہے لیکن ’’گھر واپسی‘‘ کی یہ تحریک بری طرح ناکام رہی ہے اور مسلمانوں نے تمام تر دبائو کے باوجود اپنا مذہب چھوڑنے سے انکار کردیا ہے۔
مذہب تبدیل کرنے میں ناکامی کے بعد اب مودی حکومت نے شہریت کا متنازع قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا ہے جس کے تحت مسلمانوں کو بھارت میں رہنے کے لیے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کے پرکھے اس سرزمین پر صدیوں سے آباد تھے اور اس کا دستاویزی ثبوت ان کے پاس موجود ہے۔ اس شرمناک قانون کے خلاف پورے بھارت میں شدید احتجاج برپا ہے اور اس احتجاج میں غیر متعصب اور روشن خیال ہندو بھی مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بھارت کی کئی ریاستوں نے بھی اس قانون کو مسترد کردیا ہے۔ ابھی یہ احتجاج جاری تھا کہ پوری دنیا میں کورونا وائرس پھیل گیا اور بھارت بھی اس کی زد میں آگیا۔ لیکن مسلمان دشمنی ملاحظہ ہو کہ اس وبا کے پھیلائو کی ذمے داری مسلمانوں پر ڈال دی گئی۔ اتفاق ہے کہ اُن دنوں دہلی میں تبلیغی جماعت کا اجتماع ہورہا تھا۔ کہا گیا کہ کورونا تبلیغیوں سے پھیلا ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ حد یہ کہ تبلیغی جماعت کے رہنما مولانا سعد دہلوی کو ہلاکتوں کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قتل عمد کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔ اس وقت ہندوئوں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی کورونا کا شکار ہورہے ہیں لیکن مسلمان مریضوں کا سرکاری اسپتالوں میں علاج سے انکار کیا جارہا ہے۔ پرائیویٹ اسپتالوں میں ہندو ڈاکٹر انہیں دیکھنے سے انکار کررہے ہیں۔ مشتعل ہندو ان کے گھروں پر حملے کررہے ہیں ان کے کاروبار تباہ کیے جارہے ہیں اور پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نسلی، لسانی اور مذہبی منافرت پھیلا کر انہیں ختم کرنے کی مہم شروع کردی گئی ہے۔ یہ ہے وہ صورت حال جس پر پاکستان نے شدید احتجاج کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مودی ہٹلر کے نقش قدم پر چل رہا ہے جس نے جرمنی میں یہودیوں کے وجود کو ناممکن بنادیا تھا۔ او آئی سی نے بھی بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار کا شدید نوٹس لیا ہے اور بھارت کو خبردار کیا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ یہ ظالمانہ برتائو ناقابل برداشت ہے۔ عرب ممالک میں یہ آوازیں بھی اُٹھ رہی ہیں کہ اگر بھارت مسلمان باشندوں کے خلاف اپنا ظالمانہ رویہ نہیں بدلتا تو عرب ملکوں سے بھارتی باشندوں کو نکال دیا جائے۔ لیکن احتجاج اور ممکنہ جوابی کارروائی اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ بھارتی مسلمان کہاں جائیں، کیا کریں۔ انہوں نے ہندوئوں کے ساتھ امن و مفاہمت سے رہنے کی تمام کوششیں کرکے دیکھ لیں لیکن ان کا وجود ہندوئوں کو گوارا نہیں ہے۔ بھارت میں ان کی آبادی بیس کروڑ سے زیادہ ہے، اتنی بڑی آبادی کی نقل مکانی بھی ممکن نہیں۔ یہ سوال عالمی سطح پر غور وخوض کا مستحق ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ کیا بھارتی مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا قیام ممکن ہے۔