عطا محمد تبسم
اخبارات کا بنڈل بہت دیر سے گیلری میں پڑا ہے۔ پہلے کی طرح مجھے اب اخبار سے بہت زیادہ رغبت نہیں رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے میں کئی دن ایسے گزرے ہیں، جن میں اخبار کا ربڑ بینڈ بھی نہیں اُتارا گیا۔ میرے لیے وہ اخبار شائع ہی نہیں ہوئے تھے۔ مجھے اخبار کی سرخیوں سے خوف آنے لگا تھا۔ ایک وبائی اور جان لیوا بیماری جس نے سب سے پہلے خبروں کا قتل عام کیا، اخبار اور میڈیا پر خبروں کی موت کا کوئی باقاعدہ اعلان تو نہیں ہوا، لیکن رفتہ رفتہ اخبار سے وہ خبریں ناپید ہوگئی، جو کئی دہائیوں سے اس کی سرخیاں، تصویروں، کالموں، مضامین میں جگمگاتی تھی۔ سیاست دان، حکمران، صنعت کار، تاجر، ڈاکوں، عدالت، فنکار، جن سے اخبار کی زینت تھی، اب اندر کے صفحات پر اکا دکا خبروں میں نظر آتے ہیں۔
اب خبروں کا مرکز و محور ایک ہی ہے۔ ’’کورونا‘‘ میں اسے خوف کا استعارہ سمجھتا ہوں۔ کچھ اسے عزرائیل کا ایک ہتھیار سمجھتے ہیں۔ جو موت سے پہلے اس کی آمد سے انہیں ڈراتا ہے۔ اور وہ اس کے خوف ہی سے مر جاتے ہیں۔ کل مجھے ایک ڈاکٹر کے کلینک جانے کا اتفاق ہوا۔ مجھے پیٹ کی خرابی کی شکایت تھی۔ جو معمول کے مطابق معمولی دوا سے کسی حد تک ٹھیک ہوچکی تھی۔ لیکن صبح سویرے ہی میری بیٹی نے جو میری صحت سے متعلق ہر وقت متوحش رہتی ہے۔ اور معمولی سی بات پر بھی مجھے دوا لینے اور ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتی ہے۔ اس ڈاکٹر کے یہاں فون کیا۔ اور مجھے کہا کہ آپ جاکر ڈاکٹر کو ضرور دکھا لیں۔ عام دنوں میں ڈاکٹر سے وقت لینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہاں صبح سویرے سے مریضوں کی آمد شروع ہوجاتی ہے۔ اور نمبر کے لیے کئی دن تک کوشش کرنی پڑتی ہے۔ لیکن آج میں جب اس کے کلینک پہنچا تو یہاں بھی خوف کے سائے بہت گہرے تھے۔ مریضوں کی تعداد کم تھی، سب نے ماسک لگائے ہوئے تھے۔ اور ایک دوسرے سے فاصلے پر بیٹھے تھے۔ خود ڈاکٹر صاحب ’’قرنطینہ‘‘ میں تھے۔ سب سے الگ تھلک شاید کسی کمرے میں۔ فون کی گھنٹی بجتی اور مریض اپنی کیفیت سے انہیں آگاہ کرتا، کچھ دیر میں ان کا لکھا نسخہ باہر آجاتا، جس کے مطابق دوائیں تیار کردی جاتی۔ یہاں پہنچ کر مجھے ایک بار پھر خوف نے آگھیرا، میں یہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ پھر خواتین کی انتظار گاہ کو خالی پاکر مجھے کچھ اطمینان ہوا، اور میں سب سے الگ تھلگ یہاں بیٹھ گیا۔
تو کیا یہ خوف مجھے اسی طرح گھیرے رہے گا۔ ہمارے وزیر اعظم بار بار کہتے ہیں ’’ڈرنا نہیں ہے‘‘ لیکن جس طرح انہوں نے ڈرا ڈرا کر پوری قوم کو بیمار کردیا ہے۔ اس کے نفسیاتی علاج کے لیے بہت سا وقت درکار ہوگا۔ میں اس خوف کو جرأت اور بہادری کے احساس میں ڈھال سکتا ہوں۔ ماضی میں، میں بہت سے ایسے تجربات سے گزرا ہوں۔ لیکن اس وقت موت کا خوف کچھ دوسری نوعیت کا تھا۔ لیکن دیکھا جائے تو خوف ہی ہمارا سچا ساتھی ہے۔ اس خوف ہی کے سبب ہم بار بار ہاتھ دھونے، ماسک لگانے، اور گھروں میں بند رہنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
لیکن جب میں ان لاکھوں ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے بارے میں سوچتا ہوں، جو اس نادیدہ دشمن سے لڑائی کے صف اول کے سپاہی ہیں۔ یا ان این جی اوز یا الخدمت کے ان جانبازوں کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کس بے جگری اور حوصلہ سے اس وبا اور اس کے اثرات سے لڑ رہے ہیں۔ وسائل کی کمی کے باوجود
اسپتالوں میں ڈاکٹر اس جان لیوا مرض سے لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے خوف کو امید سے بدل دیا ہے۔ امید روشنی ہے، ہمارا کل اس امید کے روشن دیے کی لو ہے۔ کل شام جب کچھ اندھیرا ہوچلا تھا۔ دروازے پر ایک عورت آئی۔ اس کے ساتھ تین بچے بھی تھے۔ میرے کرائے دار نے اسے راشن کا تھیلہ دیا۔ وہ خاصا بھاری تھا۔ عورت نے اپنی گود کا بچہ اپنی بڑی بچی کو دیا۔ اور راشن کا بھاری تھیلہ اپنے سر پر رکھ لیا۔ اس کی شکرگزاری اور ممنونیت اس قدر تھی کہ اسے دیکھ کر پلکیں نم ہوگئیں۔ ایسے ہزاروں لوگوں کو راشن ان کے گھروں پر مہیا کرنا۔ الخدمت اور ان جیسی سیکڑوں تنظیموں ہی کا جگرا ہے۔ اسی لیے میں اس بات کا قائل ہوگیا ہوں کی اس خوف کو کسی ایسی مثبت سرگرمی سے بدل دین جو کسی کام آئے۔ مجھے اب خود کو بھی بار بار یہ یاد دہانی کرانی پڑتی ہے کہ ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘۔ کچھ کام کرنا ہے، تبدیلی کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ اس سے میں کچھ بہتری محسوس کرتا ہوں، امید کرتا ہوں کہ میں نے تھوڑا بہت ایسا کام کیا ہے۔ جو ہر انسان کی زندگی میں بہتری لائے گا۔ اب جب میں خوف کا شکار ہوتا ہوں تو میں اسے آگے دھکیل دیتا ہوں۔ اس طرح اس کی شکل تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس کے اثرات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ میرا خوف کم ہوجاتا ہے۔