مختصر پراثر

511

٭آج کے مختصر پراثر کا رئیس امروہوی مرحوم کے ایک قطعہ سے آغاز کرتے ہیں:
کہنے لگے کہ ہم کو تباہی کا غم نہیں
میں نے کہا کہ وجہ تباہی یہی تو ہے
ہم لوگ ہیں عذاب الٰہی سے بے خبر
اے بے خبر! عذاب الٰہی یہی تو ہے
٭ یہاں سے گزر تو رہے ہیں، چلو مریض کی طبیعت پوچھ لیں، کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹرز کورونا کے بعد مریض کتنے عرصے زندہ رہ سکے گا؟ کس کی بات کررہے ہو؟ امریکا کی۔
٭ ’’ایسا کرتے ہیں امریکا چلتے ہیں‘‘
’’نہیں یار! رہنے دو‘‘
’’اچھا لندن چلتے ہیں‘‘
’’نہیں! نہیں! لندن نہیں‘‘
’’اچھا اٹلی، فرانس، اسپین، یورپ، جہاں تم کہو وہی چلتے ہیں‘‘۔
’’نہیں یار! کہیں نہیں جانا، اپنا پاکستان ہی ٹھیک ہے‘‘۔
٭ 26اپریل: پاکستانی اخبارات کی سرخیاں: وزیراعظم نے وعدے کے مطابق کل 25اپریل کو چینی چوروں، آٹا چور وزرا کو پھانسی دے کر نشان عبرت بنادیا۔ ایک خواب
٭ ایک ماہر نفسیات کے کلینک پر لکھا تھا: ’’برائے مہربانی جون ایلیا اور لڈن جعفری کے چاہنے والے رجوع نہ کریں‘‘۔
٭ بعض اینکر پرسنز کی ایک دوسرے کو نصیحت ’’دیکھو آمین نہیں بولنا۔ مولانا ابھی تھوڑی دیر بعد دعا کرتے ہوئے کہیں گے۔ اللہ ہم سب کو ہمیشہ سچ بولنے کی توفیق دے‘‘۔
٭ بڑے افسوس کی بات ہے 99فی صد جھوٹے اور بے ایمان صحافیوں کی وجہ سے باقی ایک فی صد بھی بد نام ہورہے ہیں۔
٭ وہ اعلیٰ عدلیہ جس نے پاناما سے اقامہ نکالا تھا۔ آٹے، چینی اور پاور کمپنیوں کی اربوں روپے کی کرپشن کے بعد کہاں سورہی ہے؟ کوئی بتائے گا۔
٭ سماجی فاصلے سے سب سے زیادہ کون پریشان ہے! جیب کترے
٭ بائیس برس کی سیاسی جدوجہد لیکن بائیس کروڑ عوام کے لیے بائیس باصلاحیت وزرا کی ٹیم بھی تیار نہ کرسکا۔ پاکستان میں کسی ایک شخص کا نام بتائیے جو اس سوال کا جواب نہ دے سکے۔
٭ بھارت سے شرط لگائی جاسکتی ہے وہ پاکستان کے ساتھ اس سے برا کرکے دکھائے جو موجودہ حکومت نے پاکستان کے ساتھ کیا ہے۔
٭ کورونا وائرس کی ویکسین تو تیار ہوگئی لیکن اس کے باوجود سب سائنس دان سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ اس چیلنج سے کیسے نمٹیں پاکستان میں کرپشن وائرس کی ویکسین تیار کرنے کا چیلنج سامنے آیا ہے۔
٭ یہ کون ہے؟ یہ پاکستان کا وزیراعظم ہے۔ اس نے کیا پہنا ہوا ہے؟ اس نے برطانوی برانڈ پولو رالف لارین کا سوٹ شرٹ پہنا ہوا ہے جس کی قیمت 150پائونڈ تقریباً28ہزار روپے پاکستانی ہے۔ یہ کیا کررہا ہے؟ یہ عالمی کمیونٹی سے پاکستان کے غریب عوام کی مدد کی درخواست کررہا ہے۔
٭ چینی آٹا اسکینڈل رپورٹ کو کورونا وائرس سے بچانے کے لیے رپورٹ کو مزید دو ہفتے قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ۔
٭ دوکروڑ لوگوں کو بے روزگار کرنے، ہزاروں لاکھوں لوگوں کے گھر، دکانیں، پتھارے مسمار کرنے، پچاس فی صد لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے لانے اور مہنگائی کا بے حد وحساب طوفان لانے کے بعد بھی شکر ہے وزیراعظم کو فکر ہے کہ لوگ بھوک سے نہ مرجائیں۔
٭ نیند لائٹ آف کرنے سے نہیں وائی فائی بند کرنے سے آتی ہے۔
٭ بہت دن ہوگئے یہ آواز نہیں آرہی کہ حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔
٭ عمران خان کو روتے ہوئے دیکھ کر احساس ہوا کہ ملک اعصابی طور پر مضبوط قیادت کے ہاتھ میں ہے۔
٭ چھوڑیں عزت نفس کو، اس بات کو بھی جانے دیجیے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو، یہ پرانی باتیں ہیں۔ اب تو ہجوم بنائو، پولیس کی لاٹھیاں کھائو، بھگدڑ مچائو اور حکومتی اسکیم کے تحت رقم حاصل کرو۔
٭ سونامی بربادی کی علات، ٹائیگر درندگی کی علامت، کیا خیر کی ہر علامت وزیراعظم سے منہ موڑ چکی ہے۔
٭ وزیراعظم ہر تقریر میں فرمارہے ہیں کہ لاک ڈائون سے 25فی صد غریب متاثر ہوںگے۔ وزیراعظم کو کوئی بتائے حضور آپ کی مہربانی سے یہ تعداد 50فی صد ہوچکی ہے۔
٭ تم مجھ سے محبت کرو یا نفرت۔ دونوں صورتیں میرے حق میں ہیں اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میں تمہارے دل میں ہوں اور اگر تم مجھ سے نفرت کرتے ہو تو میں تمہارے دماغ میں ہوں۔ شیکسپیئر
٭ عورت جیسے جیسے ترقی کرتی جارہی ہے اسے بتایا جارہا ہے کہ گھر کا مرد ظالم ہوتا ہے اور باہر کا ہمدرد۔
٭ سعادت حسن منٹو سے کسی نے پوچھا کیا حال ہے آپ کے ملک کا؟ بولے ’’بالکل ویسا ہی حال ہے جیسا جیل میں ہونے والی نماز جمعہ کا ہوتا ہے۔ اذان فراڈیا دیتا ہے۔ امامت قاتل کراتا ہے اور نمازی سب کے سب چور ہوتے ہیں‘‘۔
٭ کورونا امدادی فنڈ میں وزیراعظم کے ایک گھنٹے کے پروگرام میں 50کروڑ روپے جمع ہوئے ہیں۔ اس رقم سے کراچی کے کسی بھی پوش علاقے میں تین مکان خرید کر کورونا سینٹر کھولا جاسکتا ہے۔ ویل ڈن
٭ عمران خان نے عوام سے کیا وعدے کیے تھے ان کے بدلے وہ آج عوام کو کیا دے رہے ہیں، وعدوں کے ایفا کے وہ کس مقام پر کھڑے ہیں اس پر وہ بیوی یاد آجاتی ہے جس نے فون پر اپنے پٹھان شوہر سے پوچھا ’’خان صاحب آپ کہاں ہیں‘‘ خان نے جواب دیا ’’گل بانو تمہیں وہ جیولری شاپ یاد ہے جہاں تمہیں ایک ڈائمنڈ سیٹ بہت پسند آیا تھا؟‘‘ بیوی بولی ’’ہاں ہاں یاد ہے‘‘۔ خان نے کہا ’’اور تمہیں یاد ہوگا میں نے اس وقت کہا تھا جان میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں یہ سیٹ خرید سکوں‘‘۔ بیوی بولی ’’ہاں ہاں سرتاج یاد ہے آپ نے کہا تھا‘‘۔ شوہر بولا ’’اور میں نے یہ وعدہ کیا تھا ایک دن میں یہ سیٹ تمہارے لیے ضرور خریدوں گا‘‘۔ بیوی خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے ’’ہاں ہاں جان یاد ہے‘‘، شوہر بولا ’’بیگم بس ابھی تھوڑی دیر میں گھر پہنچتا ہوں اسی جیولر شاپ کے برابر والی دکان پہ کھڑا نسوار خریدرہا ہوں‘‘۔